"تجدید عہد کا دن "

تحریر : سید ساجد شاہ

تجدید عہد کا دن
اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ان میں کچھ ایسے مہینے ہوتے ہیں جو شاہراہ تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں –

پاکستان کی تاریخ میں مارچ کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے -23 مارچ وہ عظیم دن ہے جب انگریز کی غلامی سے نجات پانے کے لئے قرار داد پاکستان منظور کی گئی وہ کون سے عوامل و محرکات تھے جو پاکستان کے قیام کا سبب بنے؟

آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں مارچ 1940ء کو کیوں اجلاس منعقد کیا؟ اس اجلاس میں قرارداد لاہور جو بعدازاں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کیوں پیش کی گئی؟

نظریہ پاکستان کیا ہے…؟ اور پاکستان کی بقاء نظریہ پاکستان سے کیوں کر وابستہ ہے…؟یہ سب سوالات بہت اہم ہیں اور موجودہ حالات میں ان کے جوابات جاننا بہت ضروری ہو چکا ہے۔ان سوالات کا تعلق تاریخ سے ہے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ برصغیر میں اسلامی ریاست کی بنیاد شہاب الدین غوری کے غلام قطب الدین ایبک نے1206ء میں رکھی جو 1857ء تک قائم رہی۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کا اپنی رعایا سے جو سلوک رہا، مورخین نے اسے مثالی دور قرار دیا ہے جبکہ ہندو مورخین نے مسلمانوں کے دور حکومت کو ظلم،زیادتی ونا انصافی اور شمشیر وسناں کی حکمرانی سے تعبیر کیا ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ اگر مسلمانوں نے ظلم وناانصافی سے حکومت کی ہوتی تو آج بھارت کی سرزمین پر ہندو اتنی بڑی تعداد کے ساتھ نہ رہ رہے ہوتے۔

 "تجدید عہد کا دن "

اس کے برعکس ہندوئوں نے کبھی بھی مسلمانوں کو دل سے قبول نہ کیااور جب بھی ان کوموقع ملا مسلمانوں کو جانی ومالی نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ابوریحان محمد بن احمد البیرونی جو ایک عرصہ تک ہندوستان میں بغرض تحقیق رہے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ میں لکھتے ہیں’’ہندو غیروں کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔ جو شخص ان کی قوم میں سے نہیں اسے اپنے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ ایسی حالت ہے جوان کا ہر دوسری قوم سے رشتہ توڑ دیتی ہے۔‘‘ عام ہندوئوں اور راجوں مہاراجوں نے مسلمانوں سے جو ظالمانہ و سفاکانہ سلوک روا رکھا اس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ مرہٹوں کا دور مسلمانوں کے لیے اتنا المناک تھا کہ قلم اس کو احاطہ تحریر میں لانے اور زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ 1857ء کے بعد جب انگریز کلّی طور پر ہندوستان کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے تو اس موقع پر بھی  ہندوئوں نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کیلئے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو سیاسی، مذہبی، سماجی، اور معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے جو منصوبے بنائے ان میں سے ایک منصوبہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام تھا۔ہمارا مستقبل کیا ہو گا…؟ہمارا دین، ہماری عزت و آبرو اور جان و مال کیوں کر محفوظ رہ سکیں گے…؟اسی دوران لکھنو میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں بانی پاکستان محمد علی جناح جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے نے مسلمانوں کو اتحاد کا سبق دیا اور یہ بات باور کروائی کہ مسلمان اورہندو دو الگ قومیں ہیں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن، زبان، رسوم ورواج اور تاریخ و روایت… سب الگ ہیں۔مسلمانوں کی طرف سے علیحدہ قوم ہونے کا یہ دعوی بہت موثر و مثبت اور جاندار ثابت ہوا۔کہاں وہ وقت تھا جب مسلمان خود کو اقلیت اور کانگریس ان کو ریوڑ سمجھتے ہوئے جدھر چاہتی ہانک کر لے جاتی اور کہاں یہ وقت آیا کہ مسلمان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک ایسی حقیقت، صداقت، طاقت اور جماعت بن گئ کہ انہیں نظر انداز کرنا، اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا کانگریس اور انگریزوں کے لئے ممکن نہ رہا۔مسلمانوں نے علیحدہ اسلامی ریاست کو اپنا نصب العین قرار دیا اور یہی نصب العین بعد میں مطالبہ پاکستان کے نام سے مشہور ہوا 23مارچ 1940ء کو لاہور میں پیش ہونے والی قرارداد اس  ثمرکی پہلی منزل تھی۔ اس قرارداد نے مسلمانوں کی منزل طے کر دی،

 "تجدید عہد کا دن "

اس قرار داد کی روشنی میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے خداداد قابلیت ، سیاسی فہم و فراست ، عزم و جرأت ، یقین محکم اور عمل پیہم سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت کا اضافہ کیا جو بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک اہم اور اشد ضرورت تھی یخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں – پاکستان کی تاریخ میں مارچ کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے -23 مارچ وہ عظیم دن ہے جب انگریز کی غلامی سے نجات پانے کے لئے قرار داد پاکستان منظور کی گئی – اس قرار داد کی روشنی میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے خداداد قابلیت ، سیاسی فہم و فراست ، عزم و جرأت ، یقین محکم اور عمل پیہم سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت کا اضافہ کیا جو بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک اہم اور اشد ضرورت تھی –

 "تجدید عہد کا دن "

قومی زندگی کے بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دورس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں – ایسا ہی ایک لمحہ مسلمانان برصغیر کی زندگی میں 23 مارچ 1940 ء کو آیا جب لاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا 23 مارچ 1940 ء کو شہر لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں – اس تاریخی قرار داد کی رو سے آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس پورے غور و خوض سے اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان کے آئینی مستقبل سے متعلق صرف وہی تجویز قابل عمل اور قابل قبول ہو گی جو مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہوگی- یعنی موجودہ صوبائی سرحدوں میں ردو بدل کر کے ملک کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ ان علاقوں میں آزاد ریاستیں قائم ہو سکیں ، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطے میں جو علاقے شامل ہونگے ان کو مکمل خود محتاری اور اقتدار اعلی حاصل ہو گا – قیام پاکستان سے دس سال قبل الہ آباد میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے تاریخی خطبے میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کا تصور پیش کیاتھا

 "تجدید عہد کا دن "

 23مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی – قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی – دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے -1945 ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے – کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی  ایک لمحہ مسلمانان برصغیر کی زندگی میں 23 مارچ 1940 ء کو آیا جب لاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا 23 مارچ 1940 ء کو شہر لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں –

 "تجدید عہد کا دن "

اس تاریخی قرار داد کی رو سے آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس پورے غور و خوض سے اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان کے آئینی مستقبل سے متعلق صرف وہی تجویز قابل عمل اور قابل قبول ہو گی جو مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہوگی- یعنی موجودہ صوبائی سرحدوں میں ردو بدل کر کے ملک کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ ان علاقوں میں آزاد ریاستیں قائم ہو سکیں ، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطے میں جو علاقے شامل ہونگے ان کو مکمل خود محتاری اور اقتدار اعلی حاصل ہو گا – قیام پاکستان سے دس سال قبل الہ آباد میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے تاریخی خطبے میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کا تصور پیش کیاتھا –

 "تجدید عہد کا دن "

-آج ہم جب 23 مارچ کے حوالے سے یوم استقلال منا رہے ہیں تو ہمیں تحریک پاکستان کے محرک اور اساسی نظریے پر اپنے یقین کی تجدید کرنی چاہیے اور قائد اعظم ؒکے فرمودات کی روشنی میں پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی اور فلاحی مملکت بنانے کیلئے اپنے تمام صلاحیتوں اور تونائیوں کو وقف کرنے کا عہد کرنا چاہیے-

رحیم یارخان

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button