اردل روم اور کالے انگریز | عزیزخان |

اردل روم اور کالے انگریز  | عزیزخان |

عزیز اللہ خان
پولیس میں ملازمت کرنے والے ماتحتان اعلیٰ اور ادنیٰ اردل روم یا اردلی روم کے نام سے بخوبی واقف ہوں گے اور کیی دفعہ اس میں پیش ہو کر سزائیں لے چُکے ہوں گے اپنے عام دوستوں کو بتانا چاہوں گا انگریز کے بنائے پولیس ایکٹ میں جب وہ آقا تھے اور باقی سب غلام جب چھوٹے ملازمین افسران کے سامنے پیش ہوتے تھے تو اُس کا ایک خاص طریقہ کار ہوتا تھا- سزا یا جزا کے لیے ڈرل سٹاف کا CDI یا پولیس لائن کا لائن افسر ماتحت ملازم کو پریڈ کرواتے ہوئے کمرہ میں بیٹھے افسر کے سامنے پیش کرواتا تھا سب سے پہلے رکُنے کا حکم دیتا تھا پھر سامنے بیٹھے افسر کو سلام کا حکم دیتا تھا ماتحت ملازم کھڑا رہتا تھا اور افسر اُس کو سزا دے یا نہ دے کر فیصلہ کرتا تھا اس دوران افسر کو حق ہوتا تھا کہ وہ جتنا دل چاہے ماتحت کی تذلیل کر لے-ویسے تو انگریز کو یہ قانون بنائے پونے دو سو سال ہو گئے ہیں مگر آج بھی پولیس کے افسران اُسی طرح اپنے ماتحتوں کو اردل روم میں بلا کر اُنکی تذلیل کرتے ہیں
ویسے تو psp کلاس کی فرعونیت اور بے حسی کو میں نے تقر یباً 37 سال قریب سے دیکھا جس کی بے پناہ مثالیں ہیں بہاول پور میں کُچھ عرصہ بطور ڈی ایس پی سٹی کُچھ انڈر ٹرینگ اے ایس پی صاحبان کے ساتھ ایک ریسٹ ہاوس میں رہنے کا اتفاق بھی ہوا- میں نے اُن میں ایک بات جو نوٹ کی وہ اپنے ماتحتان خاص طور پر ایس ایچ اوز سے نفرت تھی باتوں باتوں اُنہوں نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ ایس ایچ او ہی وہ عہدہ ہے اگر نیا اے ایس پی اس کو دبا لے تو کامیاب ہو سکتا ہےیعنی آپ جتنا ان کو بے عزت اور ذلیل کرو گے اُتنی دھاک بیٹھے گے-
میں نے دوران ملازمت یہ بھی اکثر دیکھا کہ ڈی پی او صاحبان میٹنگ میں کسی ایک تگڑے ایس ایچ او کو اتنا بے عزت کر دیتے تھے کہ میٹنگ میں بیٹھے بقیہ ملازمان سر جھکائے آنکھیں نیچے کیے اپنے ساتھی کو بےعزت ہوتا دیکھتے رہتے تھے مگر کوئی بولتا نہیں تھا جبکہ بے عزتی شدہ ماتحت بھی سر جھکائے اپنی اس بے عزتی کو رب کی رضا سمجھتا تھا حالانکہ میٹنگ میں موجود سب لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہوتے تھے کہ افسر کا یہ رویہ صرف ماتحتان کو صرف اپنے زیر اثر رکھنے کے لیے ہے تاکہ کوئی بھی صاحب کے سامنے حکم عدولی کی جرت نہ کر سکے- میں نے یہ بھی دیکھا کہ نالائق افسر چاہے وہ پولیس والا ہو جج ہو یا کسی دیگر محکمہ کا ہو اپنی نااہلی اور نالائقی چھپانے کے لیے ماتحتوں کو بے عزت کرتا ہے-
پی ایس پی کلاس کے مطابق اے ایس پی اور اُن سے بڑے عہدہ کے صرف اس کلاس کے ان کے ساتھی افسر ہوتے ہیں باقی سب کیڑے مکوڑے جن کی کوئی عزت نہیں ہے چاہے وہ رینکر ڈی ایس پی ہو یا رینکر ایس پی ہو-
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اکثر ماتحتان خود سر ہوتے ہیں جو طمع نفسانی کی خاطر لوگوں پر ظلم کرتے ہیں انہیں قابو کرنے کے لیے سختی بھی ضروری ہے لیکن ان ملازمین خود سر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افسران ان سے جعلی پولیس مقابلے کروا تے ہیں جوڈیشل انکوئیری خلاف ہونے پر خود بے قصور ہو جاتے ہیں اور جعلی مقابلہ کرنے والا ماتحت ملازم مقتول کے ورثا کو لاکھوں کروڑوں ادا کرتا ہے اور بعد میں ساری وصولی لوگوں سے کرتا ہے
آج میری نظر سے ڈی پی او رحیم یار خان کا مورخہ 20-11-20 کا ایک حکم نامہ نظر سے گزرا جس میں صاحب موصوف نے اپنے PA کو اپنی قلمی لکھا ہے کہ "آج شام چار بجے تک اُن کے تمام تھانوں کی زیر دریافت درخوستیں مکمل نہ ہوئیں تو تمام سرکلز کے ڈی ایس پی کل نو بجے دن اُن کے اردل روم میں پیش ہو ں گے” مجھے اُنکے SDPO,s کو بلانے پر کوئی اعتراض نہیں وہ پورے ضلع کے مالک ہیں جو چاہیں کریں جس کو چاہیں بلائیں مگر اُنکی اُس سوچ پر دُکھ ہے جس میں یہ PSP کلاس خود کو نوری سمجھتی ہے اگر دیکھا جائے تو ڈی ایس پی گریڈ 17 میں ہوتا ہے اور آجکل اکثر اضلاع میں گریڈ 18 کے DPO تعینات ہیں اپنے سے عمر میں بڑے اور ایک گریڈ کم گزٹیڈ افسران کو اس طرح اردل روم میں بلانا انتہائی شرمناک ہے-ڈی ایس پی کو صرف آئی جی اردل روم میں بلا سکتا ہے
اب ان کالے انگریزوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی-بے شک یہ محکمہ انگریز کے 1861 کے بنائے پولیس ایکٹ ہر چل رہا ہے مگر اب انہیں سمجھ جانا چاہیے کہ یہ 2020 ہے جس طرح اب ماتحت ملازمین سوشل میڈیا پر اور ان کے سامنے بولنا شروع ہو گئے ہیں کُچھ عرصہ بعد ان کالے انگریزوں کا ماتحتوں کو اردل روم میں بلانا مشکل ہو جائے گا-

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button