مخدوم سید احمد محمود کے‘‘پسندیدہ گھوڑے’’علامہ عبدالرﺅف ربانی کی ‘‘نئی ٹویوٹا گرینڈی’’

پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر سابق گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود کے 5 پیاروں اور 9 رتنوں کی کہانی ۔۔۔۔
ناشتہ /عقاب صحرائی
مخدوم سید احمد محمود کے‘‘پسندیدہ گھوڑے’’ اور علامہ عبدالرﺅف ربانی کی ‘‘نئی ٹویوٹا گرینڈی’’
28-02-2022
ڈسٹرکٹ میئر رحیم یارخان کے الیکشن کے حوالے سے ضلع کی ایک بڑی روحانی شخصیت سے گفتگو کے دوران جب اُنہیں بتایا گیا کہ ممکنہ مقابلہ مخدوم خسرو بختیار کے بھائی اور مخدوم سید احمد محمود کے صاحبزادے کے درمیان ہو گا ،

تو اُس اللہ والے نے بے ساختہ جواب دیا ، ایک پیسے میں زیادہ ہے ، دوسرا اخلاق میں ، دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟
پاور پالیٹیکس اور انتخابی سیاست میں پیسے اور حکومتی طاقت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، لیکن یہ بھی ہوتا آیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنی عوامی مقبولیت ، سیاسی حکمت عملی اور اخلاقی و سماجی حوالے سے اپنے بہتر رویوں کی وجہ سے کامیاب ہو جاتی ہیں ،

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ملتان کے ضلع ںاظم کا پہلا الیکشن ( 2000 میں ) موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن ( پاکستان پیپلزپارٹی ) کے اُمیدوار کی حیثیت سے جیت لیا تھا ۔
قارئین کرام ! قومی اور عالمی سطح پر بڑے بڑے واقعات اس تیزی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں کہ مقامی ایشوز پر لکھنے کا وقت ہی نہیں مل رہا ،

اس لیئے ‘‘ناشتہ’’ پیش کرنے میں اس بار کچھ زیادہ ہی تاخیر ہو گئی ہے ، ایک فری لانس جرنلسٹ ہونے کی وجہ سے چونکہ ہمیں آج کل قومی اور عالمی ایشوز پر مطلوبہ ریسرچ رپورٹس ، ویڈیوز اور کالموں کیلئے بہت زیادہ وقت دینا پڑ رہا ہے اس لیئے ناشتے کے قارئین اگلے چند ہفتوں کے دوران ہماری مزید ‘‘غیر حاضریوں ’’ کی توقع بھی کر سکتے ہیں ،

ان ممکنہ خدشات کی وجہ سے آج کا یہ لوکل کالم بھرپور قسم کا ( خاص طویل ) ہو گا ، تاکہ اپ ڈٹ کر ناشتہ کر لیں اور تادیر مزید طلب نہ رہے ۔
پیارے پڑھے والو! چند ہفتے قبل ہمارے 1990 کے عشرے کے ساتھی سینئر جرنلسٹ جناب اعجاز خان صاحب نے سوشل میڈیا پر پاکستان پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر سابق گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود کے پسندیدہ گھوڑے کے حوالے سے ایک پوسٹ شیئر کی ،

اوپر سے بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد تھی ، اس لیئے ہم نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ مخدوم صاحب کے پسندیدہ گھوڑوں اور ممکنہ نئی ‘‘بلدیاتی دوڑ’’ کے حوالے سے ایک کالم لکھیں گے ،

ہم اپنے بھائی جناب اعجاز خان صاحب کے شکر گزار ہیں کہ اُن کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کی وجہ سے ہمیں اپنے قارئین کیلئے ایک انتہائی دلچسپ اور مرچ مصالحہ قسم کا ‘‘ناشتہ’’ پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔

جناب اعجاز خان صاحب ضلع رحیم یارخان کے حقیقی ورکنگ جرنلسٹوں کی اس منفرد صف سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن کی بڑی تعداد اپنی آزادانہ صحافت کی وجہ سے ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان سے ‘‘آئوٹ’’ کی جا چکی ہے اور وہاں ‘‘گلشن کا کاروبار’’ کچھ نودولتیوں کے ہاتھ میں ہے کہ جنہوں نے ہر نئی حکمران جماعت کی ‘‘بیعت’’ کر کے لوٹ مار کرنے کو اپنی زندگیوں کا واحد مقصد بنا رکھا ہے ،

اس لیئے اُنہیں کسی اچھے قلم کار یا جینوئن ورکنگ جرنلسٹ کی ڈسٹرکٹ پریس کلب میں موجودگی سے کوئی دلچسپی نہیں ۔

ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان پر قابض ٹولے کا حوالہ آیا ہے تو اس نئے اسکینڈل کا بھی کچھ ذکر ہوجائے کہ جس کے مطابق مبینہ طور پر 34000 ، 24000 اور 14000 اخبار روزانہ چھاپنے کے جعلسازی والے اے بی سی سرٹیفکیٹس لینے والے 3 سابق صدور کے ڈمی اخبارات کیخلاف اعلیٰ سطح کی تحقیقات جاری ہے ،

بڑی جعلسازی کے ذریعے مختلف سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے کروڑوں روپے کے اشتہارات لے کر ہڑپ کرنے کے اس بڑے اسکینڈل کو ملی بھگت سے داخل دفتر کروانے کی ناکام کوشش کے چکر میں پڑ کر رحیم یارخان کے ایک نوجوان بیوروکریٹ نے اپنا پورا کیرئیر بھی دائو پر لگا دیا ہے ،

شہاب نامہ کی مشہور زمانہ کہانی ‘‘رپورٹ پٹواری مکمل ہے ’’ والے فارمولے کے تحت اس انکوائری کو اُسی بیوروکریٹ کے ذریعے داخل دفتر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو مبینہ طور پر ضلع رحیم یارخان کی کچھ بڑی سیاسی و کاروباری شخصیات سمیت کروڑوں روپے کے سرکاری و نیم سرکاری اشتہارات کی لوٹ مار کے اس اسکینڈل میں بطور سلیپنگ پارٹنر خود بھی شامل ہے ،

ان سلیپنگ پارٹنرز نے مبینہ طور پرکئی ملین روپے اس ‘‘بزنس’’ میں انویسٹ کر رکھے ہیں ۔ اس اسکینڈل کی ہوشربا تفصیلات میں جانے سے پہلے ہم اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ۔

پیارے پڑھنے والو ! پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد ہے اور گلشن کے اس کاروبار کے چاروں فریق ، باغباں ، صیاد ، بزم گل اور باد صبا ، اپنے اپنے انداز میں محوسفر ہیں ، ضلع رحیم یار خان میں بھی اس حوالے سے خاصی گہما گہمی ہے ۔

ہر کوئی اپنی اپنی پالیسی کے مطابق ”رابطے“ بڑھا رہا ہے ، لوکل لیول کے ”ٹیڈی الیکٹ ایبلز“ کی بڑی تعداد ہمیشہ کی طرح پھر ہوا کا رُخ دیکھ رہی ہے اور”ہر کسی“ کو راضی رکھنے کے چکر میں ہے۔ بقول ثاقب لکھنوی

اے چمن والو! چمن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی

قارئین کرام ! 3 صوبوں کے سنگم پر ایک اور منظر بھی اُبھرتا دکھائی دے رہا ہے ، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ نئے عزم وہمت کی یہ بیل منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں ، تاہم کچھ لوگوں کے تیور یہ بتا رہے ہیں کہ اس بار کچھ ایسے نئے اتحاد اور نئی انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہونے جا رہی ہے کہ جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا ۔ باغباں اورصیاد کے ہاتھوں الگ الگ ”تختہ ِمشق“ بننے کی بجائے ، سارے ”سینہ چاک“ مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اس لیئے یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار بزم گل اور باد صبا اکھٹے ہو جائیں اور گلشن کے کاروبار میں باغباں اورصیاد کی من مانیوں کا راستہ روک دیں ، اس نئی صورتحال میں ہمیں شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ نظم ”شمع اور شاعر“ کے کچھ اشعار یاد آرہے ہیں اس لیئے ضلع رحیم یارخان کے آنے والے بلدیاتی انتخابات کی نئی ممکنہ تکون (ٹرائیکا) مخدوم سید احمد محمود ، چوہدری محمد جعفر اقبال اور علامہ عبدالرﺅف ربانی کی ”نذر“ پیش کر رہے ہیں ، ملاحظہ فرمایئے ۔
آسماں ہوگا ، سحرکے نور سے آئینہ پوش
اورظلمت رات کی ، سیماب پا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری ، پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی ، درد آشنا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
”بزم ِگُل“ کی ہم نفَس ”بادِ صبا“ ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا ، کیا سے کیا ہو جائے گی
قارئین کرام ! ایک طرف اپوزیشن کی رکن تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں قومی اور ملکی لیول پر اکھٹی ہوتی دکھائی دے رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق و موجودہ ارکان اسمبلی کے ساتھ رابطے بڑھا رہی ہے ، اسی تناظر میں ہم نے اپنے کسی سابقہ کالم میں جناب مخدوم سید احمد محمود کو پاکستان پیپلزپارٹی کے بھونگ سے ایم پی اے جناب رئیس نبیل احمد خان کے والد محترم جناب رئیس منیر احمد خان اور پیپلزپارٹی کے ہی خانپور سے سابق ایم این اے جناب میاں عبدالستار صاحب دونوں سنیئر سیاستدانوں کی ‘‘پراسرار سرگرمیوں’’ پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا تھا ، جس پر توجہ نہیں دی گئی اور عجلت میں کئی ایسے قدم اُٹھا لیئے گئے ہیں کہ جس کی وجہ سے معاملات ایک جیتی ہوئی بازی ہارنے کی صورتحال پیدا ہونے کی طرف سے بھی جا سکتے ہیں ، اس لیئے ہم آج کے ‘‘ناشتے’’ میں جناب مخدوم سید احمد محمود کی خدمت میں کچھ مزید ‘‘معصومانہ ٹپس اور تجزیئے ’’ پیش کر رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اس لیئے یہ بھی ممکن ہے کہ آج کا ناشتہ کچھ ‘‘مہربانوں’’ کے منہ کا ذائقہ خراب کر دے لیکن ہمیں تو ‘‘اصل مرض’’ کی دوا کرنی ہے اور دوا اکثر کڑوی کسیلی ہی ہوتی ہے ، اس لیئے اپنے خیر خواہی کے جذبے کی وجہ سے کچھ کڑوے سچ پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔
قارئین کرام ! پی ٹی آئی کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے نیشنل لیول کے رابطوں اور لانگ مارچ کی دوہری ذمے داریوں کی وجہ سے مخدوم سید احمد محمود کی مصروفیات اتنی زیادہ بڑھ گئی ہیں کہ شاید اُن کے پاس ضلعی و بلدیاتی سیاست (لوکل پالیٹیکس) کیلئے زیادہ وقت نکالنا ممکن نہیں رہا ، اس لیئے اب یہ ذمے داری اُن کے پانچ پیاروں ( مخدوم سید مصطفیٰ محمود ، مخدوم سید مرتضیٰ محمود ، مخدوم سید علی محمود ، مخدوم سید عثمان محمود اور مخدوم سید حیدر محمود ) کی ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں پہچانیں ، وگرنہ لوکل پالیٹیکس کے تمام معاملات اگر مخدوم صاحب کے ‘‘نورتنوں’’ (9 Diamonds) ہی کے رحم وکرم پر رہے تو اس عجیب و غریب فیصلے جیسے ‘‘پولیٹیکل بلنڈرز’’ ہوتے ہی رہیں گے کہ جن کا آج کے ناشتے میں ہم تفصیلی تجزیہ کرنے جا رہے ہیں ۔ پہلی صدی قبل مسیح کے عظیم ہندوستانی بادشاہ مہاراجہ بکرماجیت اور مغل بادشاہ اکبراعظم کے 9 رتن تاریخ کا حصہ ہیں ، طویل عرصے تک سیاست و حکومت کرنے والی اکثر بڑی شخصیات کے ہاں ایسے ہیرے جمع ہو ہی جاتے ہیں ۔
قارئین کرام ! حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ اپنے بچوں کو اپنا راستہ خود بنانے دو اور انہیں اپنے راستے پر چلنے کیلئے مجبور نہ کرو کیونکہ اللہ رب العزت نے اُنہیں آنے والے زمانے کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔ دنیا کا مزاج آج جس تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے اس کی وجہ سے میدان سیاست کے بہت سے پینترے اور دائو پیچ بھی تیزی کے ساتھ آئوٹ آف ڈیٹڈ ہوتے جا رہے ہیں ، ایک ایسا ہی دائو پیچ ‘‘ 9 رتنوں ’’ کی کارٹلایزیشن ہے کہ جس کے ذریعے وڈیرہ شاہی کے مینجرز اور الیکٹ ایبلز کے پولیٹیکل سیکرٹریز باہمی ملی بھگت سے ‘‘صاحب’’ کے گرد گھیرا ڈال کر صدیوں سے اصل حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں ، اس سارے طلسم ہوشربا کی بنیاد جھوٹ پر استوار کی جاتی ہے اور‘‘ 9 رتنوں کا کارٹل ’’ ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملانے کیلئے یہ سفید جھوٹ اپنے اپنے ‘‘صاحب ’’ کے سامنے بھی انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ بولتا ہے ۔ ایک بار پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان مبارک یاد آ رہا ہے کہ 5 لوگوں کو مشاورتی ٹیم میں شامل نہ کرو ، یہ پانچ کون ہیں اور اُن سے مشورہ نہ کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی تفصیل یہ ہے
(1) لالچی ۔۔۔۔ اپنے مفاد کیلئے برائی (غلط فیصلے) کو سجا بنا کر پیش کرے گا ۔
(2) بے وقوف ۔۔۔۔۔ آپ کو فائدہ پہنچانا چاہے گا ، لیکن اُلٹا نقصان کا باعث بن جائے گا
(3) کنجوس ۔۔۔۔۔ ضروت کے وقت بخل سے کام لے گا ، جب آپ کو اس کی مدد کی اشد ضرورت ہو گی وہ دور بھاگے گا ۔
(4) فاسق ۔۔۔۔۔ یعنی بدکردار ، وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا ۔ گویا ‘‘ قومے فروختند ، چہ ارزاں فروختند’’ والا معاملہ کرے گا ۔
(5) جھوٹا ۔۔۔۔ کیونکہ وہ سراب کی مانند ہوتا ہے ( اپنے مفادات کیلئے ) دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا

قارئین کرام ! چند ہفتے قبل جب مخدوم سید احمد محمود نے ضلع رحیم یارخاں میں لوکل باڈیز الیکشن کے تناظر میں اپنی طوفانی رابطہ عوام مہم اور مختلف الیکٹ ایبلز کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا تو ایک بار تو یوں دکھائی دینے لگا تھا کہ کوئی مقابل نہیں دور تک ۔۔۔۔۔ لیکن پھر اچانک ایک عجیب واقعہ ‘‘قصہ چہار درویش’’ پیش آ گیا اور مخدوم گروپ کی طرف سے ڈسٹرکٹ میئر اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ میئر کے پانچ اُمیدواروں کا اعلان کر دیا گیا ۔ ڈسٹرکٹ میئر کیلئے جناب مخدوم سید علی محمود صاحب کو اُمیدوار بنایا گیا ، جبکہ چاروں تحصیلوں میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ میئر کیلئے لیاقت پور سے جناب قطب فرید کوریجہ صاحب ، خانپور سے جناب میاں عبدالستار صاحب ، رحیم یارخان سے جناب میاں عامر شہباز صاحب اور صادق آباد سے سردار حیب الرحمان خان گوپانگ صاحب کو اُمیدوار ڈیکلیئر کر دیا گیا ، یہ اعلان اس قدر محل نظر اور اتنا زیادہ قبل از وقت تھا کہ شروع شروع میں تو بہت سے لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ آیا یہ اعلان واقعی جناب مخدوم سید احمد محمود صاحب کی طرف سے کیا گیا ہے ۔
پیارے پڑھنے والو ! پھر یوں ہوا کہ یہ عجیب و غریب سیاسی فیصلہ مخدوم سید احمد محمود کی عظیم بلدیاتی اُڑان کیلئے گوند کا تالاب بن گیا ، اور ہر جہاندیدہ سیاسی تجزیہ کار کا پہلا تبصرہ یہی تھا کہ سائیں نے یہ کیا کر دیا ؟ ۔۔۔۔ میاں عبدالستار کا وضاحتی بیان اس فیصلے کیلئے پہلی بارودی سرنگ ثابت ہوا ، جس میں اُنہوں نے بڑے شریفانہ انداز اپنے پیپلزپارٹی کا اُمیدوار ہونے کی تردید کر دی ۔ جناب قطب فرید کوریجہ کی لاہور میں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنمائوں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے ساتھ ‘‘کاروباری ملاقات ’’ دوسری بارودی سرنگ نکلی ، رہی سہی کسر لانگ مارچ کی تیاریوں کیلئے پیپلزپارٹی رحیم یارخان کے ضلعی پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں نے پوری کر دی کہ جن میں یہ دونوں ‘‘اُمیدوار برائے ڈپٹی ڈسٹرکٹ میئر ’’ غائب تھے ۔
پیارے پڑھنے والو ! اب آتے ہیں ڈپٹی ڈسٹرکٹ میئر کے دوسرے 2 اُمیدواروں کی طرف ۔۔۔۔۔ تحصیل صادق آباد سے سردار حبیب الرحمن خان گوپانگ کو اُمیدوار بنایا گیا ہے جو پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر بھی ہیں ، محکمہ مال کے ریکارڈ اور ضلع کی انتظامی تقسیم کے مطابق تو بلاشبہ بستی رانجھے خان اور چوک بہادر پور تحصیل صادق آباد میں شامل ہیں لیکن سیاسی ، سماجی ، کاروباری اور جغرافیائی ہر حوالے سے یہ دونوں خطے عملی طور پر ضلعی ہیڈکوارٹرز رحیم یارخان کا حصہ ہیں ، یہاں کے رہنے والے اپنی اسٹوڈنٹس لائف سے لے کر سوشل اور بزنس لائف تک اپنی زندگی کا کم و بیش زیادہ تر وقت ضلعی ہیڈکوارٹرز میں گذارتے ہیں ، بھونگ ، رحیم آباد ، احمد پور لمہ ، سنجر پور اور کوٹ سبزل سے صادق آباد شہر تک ‘‘ٓاصل صادق آباد’’ میں سردار صاحب کی ‘‘عدم موجودگی’’ کا تناسب ذہن میں رکھا جائے تو سردار حبیب الرحمان گوپانگ کو تحصیل صادق آباد سے ڈپٹی ڈسٹرکٹ میئر کا اُمیدوار بنانے کا فیصلہ سیاسی اور تکنیکی ہر حوالے سے محل نظر دکھائی دیتا ہے ۔ ۔۔۔۔ رحیم یارخان سے ڈپٹی ڈسٹرکٹ میئر کے اُمیدوار جناب میاں عامر شہباز صاحب کی اپنی تحصیل میں ‘‘موجودگی’’ کا تناسب تو سردار حبیب الرحمن گوپانگ کی تحصیل صادق آباد میں موجودگئ کے ‘‘تناسب’’ سے بھی کم ہے ، سردار حبیب الرحمن گوپانگ اس حوالے سے کسی حد تک موثر اُمیدوار ہیں کہ اُن کی گوپانگ برادری کا دس بارہ ہزار کاسٹنگ ووٹ اس تحصیل میں موجود ہے لیکن میاں عامر شہباز کو تو یہ سہولت بھی میسر نہیں ، رحیم یارخان میں عوامی سطح پر اُن کی کوئی برادری نہیں کیونکہ اُن کا اصل تعلق عارف والا کی آرائیں برادری سے ہے جن کی رشتے داریاں زیادہ تر بہاولپور، بہاولنگر، پاک پتن ایریا کے آرائیوں میں ہیں ، اس لیئے تحصیل رحیم یارخان کی برادری پالیٹیکس میں اُن کی سیاسی حیثیت ایک اجنبی (Alien) سے زیادہ نہیں ، اُن کا کل سیاسی اثاثہ پی ٹی آئی ایم پی اے چوہدری محمد شفیق آف چناب گروپ کے ساتھ مل کر رحیم یارخان چیمبر کی سیاست کرنے اور مخدوم گروپ یا مسلم لیگ ن کی مدد سے ایک یونین ناظم یا ممبر ضلع کونسل بنتے رہنے تک محدود ہے ، اُن کی یونین کونسل جغرافیائی طور پر تحصیل رحیم یارخان کے اصل ووٹ پاور والے چاروں خطوں ( منٹھار روڈ ، پتن منارہ روڈ ، ابوظہبی روڈ اور خانپور روڈ ) کے چکوک سے کٹی ہوئی اور الگ تھلگ سی ہے ۔ پی ٹی آئی ایم پی اے چوہدری محمد شفیق آف چناب گروپ کو وہ اپنا سیاسی اُستاد قرار دیتے ہیں ، اگرچہ پچھلے چار پانچ برسوں کے دوران اُنہوں نے اپنے اُستاد محترم سے یہ اعزاز واپس لے لیا تھا لیکن حالیہ چند ماہ کے دوران رحیم یارخان چیمبر کی سیاست میں آنے والے زلزلے کے دوران جو نئی صف بندی ہوئی ہے اس کی وجہ سے اُنہوں نے چوہدری محمد شفیق آف چناب گروپ کو اپنے سیاسی اُستاد کے منصب پر دوبارہ ‘‘بحال’’ کر دیا ہے ۔ غالبا یہ اس سیاسی ‘‘حلالہ ’’ کا ہی شاخسانہ تھا کہ ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان کے عہدیداروں کی حلف برداری کی حالیہ تقریب کے دوران جب اُن کے ‘‘سیاسی اُستاد ’’ کی سیاسی و سماجی تنہائی عیاں ہوئی اور ضلع کی قابل ذکر سیاسی و کاروباری شخصیات کی عدم شرکت نے حلف برداری کے رنگ پھیکے کر دیئے تو میاں عامر شہباز نے ذاتی طور پر تقریب میں رنگ بھرنے کیلئے خوب زور لگایا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر یوں ہوا کہ ‘‘ضروری کاموں’’ کی وجہ سے جب ڈی پی او رحیم یارخان کیپٹن (ر) محمد علی ضیا اور سابق وزیر مملکت چوہدری ظفر اقبال وڑائچ بھی اُٹھ کر چل دیئے تو تقریب حلف برداری کے ‘‘پھیکے رنگ’’ بالکل ہی بلیک اینڈ وائٹ ہو گئے ، اس نازک موقع پر مہمان خصوصی جناب چوہدری محمد شفیق آف چناب گروپ کے خطاب کے دوران ‘‘ویران’’ ہو جانے والے اسٹیج پر میاں عامر شہباز نے ‘‘پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ’’ کے مصداق ماحول میں رنگ بھرنے کیلئے زور لگانے کی انتہا کر دی اور اپنے دائیں بائیں کی خالی کرسیوں کے ساتھ مل کر ہی قہقہے لگاتے رہے ۔ اس ویڈیو کلپ کو ‘‘عبداللہ ہوٹل والا’’ کے نام سے وائرل کیا جائے تو خاصی ریٹنگ بھی پکڑ سکتا ہے ، کچھ ذرائع یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ تقریب حلف برداری چونکہ ‘‘رائل مارکی’’ میں ہو رہی تھی جو مبینہ طور پر جناب میاں عامر شہباز صاحب کی ملکیت ہے اس لیئے اُن کے ان قہقہوں اور جوش وخروش کو ایک سیلز مین کی کاروباری مسکراہٹ کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔۔۔ یہ نکتہ پیش کیئے جانے پر ہمیں بے اختیار اُس سیاسی رہنما کا واقعہ یاد آگیا کہ جسے بڑی لمبی لمبی تقریریں کرنے کی عادت تھی اور سامعین تھک ہار کر جلسہ گاہ سے اُٹھ کر جانے لگتے تھے ، ایک بار یوں ہوا کہ جلسہ گاہ میں صرف ایک سامع رہ گیا تو لیڈر نے اُسے سراہتے ہوئے کہا کہ ملکی و عوامی مسائل آپ جس انہماک سے سن رہے ہیں ہر سیاسی کارکن کو اس کی تقلید کرنی چاہیئے ، اس پر وہ اُٹھا اور کہنے لگا
‘‘جناب والا ! میں سیاسی کارکن نہیں ٹینٹوں والا ہوں ! ’’
قارئین کرام ! کالم کے آغاز میں ہم نے صادق آباد اور رحیم یارخان کی مقامی صحافت میں اپنے دیرینہ ہم سفر سینئرورکنگ جرنلسٹ جناب اعجاز خان صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کا ذکر کیا تھا ، جس میں مخدوم سید احمد محمود سُرخ رنگ والے اپنے ایک پسندیدہ گھوڑے کے ساتھ کھڑے ہیں ، جناب اعجاز خان صاحب نے لکھا تھا کہ مخدوم سید احمد محمود کا یہ فیورٹ گھوڑا پاکستان میں اب تک ریس کے کئی مقابلے جیت چکا ہے، اور اس قیمتی گھوڑے کا تذ کرہ معروف اینکر و کالم نویس جناب آفتاب اقبال صاحب اپنے ٹی وی پروگرام میں بھی کرچکے ہیں ۔ مخدوم سید احمد محمود ایک سے زیادہ بار لاہور ریس کلب کے چیئرمین بھی منتخب ہو چکے ہیں ، جمال الدین والی میں اُن کے سٹڈ فارم کا شمار ملک کے صف اول کے سٹڈ فارموں میں ہوتا ہے ۔ مخدوم صاحب کے سیاسی کیرئیر کو تو کسی حوالے کی ضرورت نہیں کہ ‘‘آفتاب آمد دلیل آفتاب ’’ والی بات ہے ،
پیارے پڑھنے والو ! آج کل جیسا کہ ملک میں وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کیئے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں تو ساتھ ہی ‘‘ہارس ٹریڈنگ ’’ کا بھی شور مچا ہے ۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ اقتدار ہو یا سیاست اور میدان جنگ ہو یا ریس کا میدان ، گھوڑوں کا سب کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے ، ملک کے سب سے بڑے ریس کلب کے چیئرمین اور سب سے اچھے سٹڈ فارم کے مالک کو اگر گھوڑوں کی پہچان نہیں ہو گی تو کسے ہو گی ؟ ۔ اس لیئے ہم مخدوم سید احمد محمود کی خدمت میں اسی ‘‘ہارس ڈپلومیسی’’ کے حوالے سے ہی کچھ ‘‘ ٹپس گفٹس ’ پیش کرنا چاہتے ہیں ، اُمید ہے کہ جمال الدین والی اسٹیٹ کے دربار میں انہیں ‘‘اِذن باریابی’’ ملے گا اور لانگ مارچ کی مصروفیات ختم ہونے کے بعد پانچ پیاروں کے ساتھ مل بیٹھ کر مخدوم صاحب ان پر غور ضرور فرمائیں گے ۔
قارئین کرام ! جنگ ، ریس ، رقص ، نیزہ بازی اور بگھی و تانگے سمیت ہر کام کیلئے الگ الگ نسلوں کے گھوڑے مخصوص ہیں ، اس لیئے کسی بھی میدان میں اُتارنے کیلئے جس گھوڑے کو تیار کیا جاتا ہے اس کی نسل اور اصل کو ضرور کھنگالا جاتا ہے ۔ اور معمولی سا بھی شائبہ ہونے پر اس نسل اور اصل کو دور تک جا کر چیک کیا جاتا ہے ، کسی اجنبی گھوڑے (Alien Horse) کو تو ون آن ون ریس میں اُتارنے کا خطرہ بھی مول نہیں لیا جا سکتا ، چہ جائیکہ ٹیم ایونٹ میں شامل کرنے کا انتہائی ہائی رسک لے لیا جائے ، سرائیکی کی مشہور ضرب المثل ہے کہ ایک ‘‘اَن تارا’’ خود تو ڈوبتا ہی ہے ، لیکن اپنے ساتھ کئی تیراکوں کو بھی لے ڈوبتا ہے ۔۔۔۔ جہاں تک رحیم یارخان سے ڈپٹی ڈسٹرکٹ میئر کے اُمیدوار کی اجنبیت (strangeness) کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کئی پہلو گہری تحقیق کا تقاضا کرتے ہیں ، سب سے پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران اُنہوں نے کتنے گھنٹے ، کتنے دن اور کتنے مہینے این اے 178 میں گزارے اور کتنے این اے 179 میں ؟، کتنے تحصیل رحیم یارخان میں اور کتنے تحصیل صادق آباد میں ۔ دوسرے یہ کہ عارف والا ہیڈ آفس سے ضلع رحیم یارخان اور خاص طور پر اںدرون سندھ کی طرف فیملی سیڈ بزنس کے پھیلائو کیلئے اُنہیں چوک بہادرپور والے ریجنل آفس بھجوانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا ؟ اُن کی غیر معمولی کاروباری صلاحیتیں اُنہیں گھر سے اتنی دور بھجوانے کی وجہ بنیں یا کوئی اور ایسا واقعہ ہوا کہ جس کی بنا پر اُنہیں ایک اجنبی خطے میں قسمت آزمائی کیلئے ہنگامی طور پر بھیج دیا گیا اور یہ معاملہ ٹانگ لگنے سے ‘‘کُب’’ سیدھا ہونے والا معاملہ بن گیا ۔۔۔۔۔ اور تیسرا اہم ترین پوائنٹ ہے سیاسی اُستاد شاگرد والا معاملہ ، اس موقع پر ہمیں ایک ڈاچی والے کی کہانی یاد آرہی ہے ، پہلے وہ سن لیں ، ہوا یوں کہ محبوبہ کے ساتھ گھر سے بھاگنے والے نوجوان شتربان کی اونٹنی راستے میں ‘‘اَڑی’’ کر کے بیٹھ گئی تو بے اختیار لڑکی کے منہ سے نکلا اس کمبخت کی ماں کو بھی یہی گندی عادت تھی ، یہ سن کر شتربان لڑکا کچھ سوچ کر لرز گیا اور محبوبہ کو واپس گھر چھوڑ آیا اور گھر سے بھاگ کر شادی کا ارادہ بدل دیا کہ ماں باپ کی خصلتیں صرف ڈاچیوں میں نسل درنسل منتقل نہیں ہوتیں ۔
قارئین کرام ! اُستاد کو روحانی باپ بھی کہتے ہیں ، چیئرمین ضلع کونسل رحیم یارخان کے پچھلے الیکشن میں جناب میاں عامر شہباز صاحب کے ‘‘سیاسی اُستاد’’ پی ٹی آئی ایم پی اے چوہدری محمد شفیق آف چناب گروپ نے مخدوم سید احمد محمود اور اُن کے گروپ کے ساتھ جو ‘‘سلوک’’ کیا تھا ، اُس کا زخم بلا شبہ ابھی تک مندمل نہیں ہوسکا ۔ سیاسی اُستاد سے ‘‘انتہائی گہرا گھائو’’ کھانے والے مخدوم صاحب کو اگلے ہی الیکشن میں اپنے پورے پینل کو سیاسی شاگرد کے حوالے کرنے کا مشورہ 9 میں سے کتنے ‘‘ہیروں’’ یا رتنوں نے دیا ہے اُن کے نام ضرور سامنے آنے چاہئیں ، تا کہ سند رہے اور بوقت ضروت کام آئے ، مشہور شعر ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں ، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی ‘‘اُستاد ’’ کے ‘‘شاگرد’’ سے دوا لیتے ہیں
پیارے پڑھنے والو! اس کالم کے ٹائٹل میں آپ نے مخدوم سید احمد محمود صاحب کے پسندیدہ سرخ رنگ کے گھوڑوں کے ساتھ علامہ عبدالرئوف ربانی صاحب کی ‘‘نئی کار’’ سفید کلر کی گرینڈی کی تصویر دیکھی ہوگی ، جمعیت علمائے اسلام ف کے سابق صوبائی جنرل سیکرٹری علامہ عبدالرئوف ربانی کو رحیم یارخان کی بلدیاتی سیاست کا جادوگر بھی کہا جاتا ہے ، اس ‘’بزرگی’’ والی عمر میں نئی کار خریدنے کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بھی خاصا تحقیق طلب اور دلچسپ معاملہ تھا ، پہلے پہل تو ہمارا خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام نے پاکستان کی دینی سیاسی جماعتوں کے تن مردہ میں جو نئی روح پھونکی ہے ، وہی علامہ صاحب کی اس ‘‘جواں عزمی’’ کا سرچشمہ ہے ، لیکن تھوڑی چھان پھٹک کے بعد محسوس ہوا کہ یہ سب نئے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کی جانے والی تیاریوں کا شاخسانہ ہے ، افغان طالبان کی طرف سے امارات اسلامی افغانستان قائم کرنے کے بعد پاکستان کے دینی ووٹ بنک کی نئی انگڑائی خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بھی نظر آ رہی ہے ، ضلع رحیم یارخان میں بھی دینی جماعتوں کا خاصا ووٹ بنک بکھرا ہوا ہے ، نئے بلدیاتی سسٹم میں پورے ضلع کے ایک ہی الیکٹورل یونٹ بن جانے کی وجہ سے یہ بکھرا ہوا ووٹ بنک اکھٹا ہو کر ایک بڑی قوت بن گیا ہے ، خاص طور پر کچے کے علاقوں میں تو جے یو آئی ، جے یو پی ، تحریک لبیک اور تحریک جعفریہ کے دیوانے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں ، ان سب تک تیز رفتار رسائی کیلئے علامہ عبدالرئوف ربانی کو بلاشبہ بڑی گاڑی کی ضرورت تھی سو اُنہوں نے یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی ۔ کئی دینی جماعتیں پی ڈی ایم کا حصہ ہیں ہمارا خیال تھا کہ علامہ عبدالرئوف ربانی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے متحرک ہوکر اس کی انتخابی مہم کو چارچاند لگائیں گے ، لیکن اب تو پیپلزپارٹی سمیت دوسری بہت سی سیاسی جماعتیں بھی ملکی سطح پر ایک پیج پر آ رہی ہیں ، اس لیئے ایک امکان یہ بھی ہے کہ متحدہ اپوزیشن مل کر بلدیاتی الیکشن لڑے ، علامہ عبدالرئوف ربانی پچھلے کچھ عرصے سے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما چوہدری محمد جعفر اقبال گجر اور پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور اس حوالے سے مختلف خبریں بھی قومی و مقامی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔
پیارے پڑھنے والو ! رنگوں کی پسند سے شخصیت کا اندازہ لگانا بھی ایک دلچسپ علم ہے ، مخدوم سید احمد محمود کو سُرخ رنگ کے گھوڑے پسند ہیں اور علامہ صاحب نے اپنی گرینڈی کیلئے سفید رنگ پسند کیا ہے ، شروع شروع میں اس ‘‘سرخ وسفید ‘‘ معاملے پر ہمیں کچھ تشویش سی لاحق ہوئی ، لیکن برادر اعجاز خان صاحب والی پوسٹ کو تھوڑا غور سے دیکھا تو بے اختیار مسکراہٹ ہمارے لبوں پر پھیل گئی کہ مخدوم صاحب سرخ رنگ والے اپنے پسندیدہ گھوڑے کی سفید رنگ کی پیشانی پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر موجود اس موقع کی ایک ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا تو سفید پیشانی پر محبت بھرا دست شفقت پھیرنے والا یہ معاملہ مزید نکھر کر سامنے آ گیا ۔ دوسری طرف لال رنگ سے علامہ عبدالرئوف ربانی کی محبت بھی ہمیں یاد آگئی کہ ہمارے یوٹیوب چینل این پی نیوز کے پروگرام ‘‘لال فقیر’’ کے وہ نہ صرف سب سے پہلے مہمان تھے بلکہ اُن کی ٹوپی کا رنگ بھی اکثر سرخ ہی ہوتا ہے ۔ اس لیئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ رنگوں کی پسند کے شخصیت پر اثرات کے تناظر میں بھی سرخ وسفید سے اُلفت ‘‘ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ‘‘ والا معاملہ لگتا ہے ۔
مخدوم سید احمد محمود اور علامہ عبدالرئوف ربانی میں ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ دوران گفتگو دونوں ہی اکثر کڑوا سچ سرعام بول جاتے ہیں اور لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کے عادی ہیں ۔ مروجہ سیاست کے حوالے سے ‘‘آئوٹ سپوکن ’’ ہونا بعض اوقات مسائل بھی پیدا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں نے اپنے اس ‘‘آزادی اظہار ’’ پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا ، ہمیں یاد ہے کہ چند برس قبل ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان کی ایک تقریب حلف برداری سے خطاب کے دوران مخدوم سید احمد محمود نے صحافی برادری کو اُن کے فائدے کا ایک مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ پرنٹڈ اخبارات کا زمانہ لد گیا ہے اس لیئے آپ لوگ ڈیجیٹل میڈیا کی طرف آئیں ، اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرے بیٹوں کو شاید مقامی اخبارات کے نام تک نہیں آتے ہوں گے اور یہ کہ وہ خود سیاستدانوں کی شاید اُس آخری نسل سے تعلق رکھتے ہیں کہ جو چھپے ہوئے اخبارات پڑھتی ہے ۔ مخدوم صاحب کے اس مخلصانہ مشورے پر بعد میں رحیم یارخان کے چند ڈمی اخبارات کے مالکان نے واٹس ایپ گروپس میں بہت شور مچایا اور کئی ہفتوں تک ضلع کے اس بڑے محسن سیاسی گھرانے کے بارے میں زہر اُگلتے رہے ۔ مخدوم سید احمد محمود صاحب نے تو اپنی وسیع القلبی کی وجہ سے اس ‘‘شکایت بے جا’’ کی کوئی پروا نہ کی ، تاہم اُن کے مریدین اور چاہنے والوں کو ‘‘نیکی برباد گناہ لازم ’’ والی اس صورتحال پر بہت دکھ ہوا ۔
قارئین کرام ! روزانہ کم و بیش 70 سے 125 اخبار(کاپیاں ) چھاپنے والے رحیم یارخان کے 3 مقامی روزناموں کی طرف سے جعلسازی کے ذریعے 34000 ، 24000 اور 14000 اخبار (کاپیاں) روزانہ چھاپنے کے مبینہ اے بی سی سرٹیفکیٹ بنوا کر کروڑوں روپے کے سرکاری و نیم سرکاری اشتہارات کی لوٹ مار کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے تو چند برس قبل مخدوم سید احمد محمود کے مخلصانہ مشورے پر آگ بگولہ ہونے والے ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان کے 3 سابق صدور کے افسوسناک رویئے کا راز بھی سمجھ میں آگیا ہے ۔ چور کی داڑھی میں تنکا اسی کو کہتے ہیں ، بلاشبہ مخدوم سید احمد محمود کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ رحیم یارخان کے چند ڈمی روزناموں نے پرنٹنگ پریسوں کی جعلی رسیدیں بنا کر بہت سے قومی اخبارات کے علاقائی ایڈیشنوں سے بھی زیادہ سرکولیشن کے اے بی سی سرٹیفکیٹس بنوا رکھے ہیں اور ان کی بنیاد پر اُن کے اشتہارات کا سرکاری و کمرشل ریٹ نیشنل نیوز پیپرز سے بھی زیادہ ہے اور اس واردات کے ذریعے وفاقی وصوبائی حکومتوں اور مختلف نیم سرکاری کارپوریشنوں کو کروڑوں روپے سالانہ کے اشتہاری کوٹے کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف اداروں کو بھجوائی گئی درخواستوں پر مختلف سطح پر انکوائری ہو رہی ہے ، آنے والے دنوں میں اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کیئے جانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں ، ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان سے اس حوالے سے جو رپورٹ طلب کی گئی تھی اسے ’’ڈسپوز آف’’ کرنے کیلئے انکوائری اُسی بیوروکریٹ کے نام مارک کروا لی گئی جو مبینہ طور پر اس نیٹ ورک کے سلیپنگ بزنس پا رٹنرز میں شامل ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈمی اخبارات کیلئے قومی اخبارات سے بھی زیادہ سرکاری و کمرشل ریٹ لینے کی اس غیر معمولی واردات میں شروع شروع میں کم وبیش ایک ، ڈیڑھ سال تک کئی ملین روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی ، یہ تمام سلیپنگ پارٹنرز اور انویسٹرز انتہائی بااثر لوگ ہیں اس لیئے انکوائری شروع ہوتے ہی حرکت میں آ جاتے ہیں ، لیکن اب جبکہ معاملہ ہائی کورٹ کی طرف جا رہا ہے تو تمام محکموں کو پرنٹنگ پریسوں کی جعلی رسیدوں ، اے بی سی سرٹیفکٹس اور میڈیا لسٹ ریٹ سمیت تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کرنا پڑے گا ، اور پنجاب حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے یہ سوال بھی ہوگا کہ جب آپ کی ماتحت پریس لاز برانچز اور محکمہ اطلاعات کے دفاتر میں اس جعلسازی کے حوالے سے تمام ریکارڈ موجود تھا تو آپ نے متعلقہ اہلکاروں کو اسے پیش کرنے کاحکم دینے کی بجائے درخواست گذاروں سے ثبوت کیوں مانگے؟ اور یہ کہ متعلقہ پرنٹگ پریس مالکان کو بلا کر یہ کیوں نہیں پوچھا گیا کہ کیا وہ مذکورہ ڈمی اخبارات ہر رات 34000 ۔ 24000 اور 14000 ہزار کی تعداد میں چھاپتے ہیں اور اگر ایسا ہے تو اُن کا بجلی کا بل اتنا کم کیوں آتا ہے ؟
پیارے پڑھنے والو ! آج کا دور ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کا دور ہے اس لیئے ‘‘جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے’’ والی پرانی کہاوت کا نیا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ، اسی کالم میں ہم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مبارک پیش کیا تھا کہ اپنی آنے والی نسلوں کو ‘‘اپنے طریقے’’ پر چلنے کیلئے مجبور نہ کرو ، اللہ رب العزت نے اُنہیں اگلے زمانے کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔۔۔۔۔ مخدوم سید احمد محمود کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ وہ ہم فقیروں کے آقا ومولا اور اپنے جد اعلیٰ کے اس فرمان عالی شان پر غور کریں اور لوکل پالیٹیکس سے متعلق اپنے مزید اختیارات اور ذمے داریاں اپنے پانچ پیاروں مخدوم سید مصطفیٰ محمود ، مخدوم سید مرتضیٰ محمود ، مخدوم سید علی محمود ، مخدوم سید عثمان محمود اور مخدوم سید حیدر محمود کو منتقل کردیں تو بہت سے معاملات میں تیزی کے ساتھ بہتری آ نا شروع ہو جائے گی ، ایک چھوٹی سی مثال سے اس بڑے کاز کو سمجھنا آسان ہو جائے گا ، فرض کریں کہ اپنی ‘‘سیاسی کارٹلائزیشن’’ کے ذریعے اگر 9 رتنوں نے کچھ کیئے بغیر ہی اس نوجوان نسل کو اپنی بھرپور عوامی و تنظیمی سرگرمیوں کا یقین دلانے کی کوشش کی تو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی کی وجہ سے یہ نوجوان نسل بے ساختہ پہلے مرحلے میں موبائل ڈیٹا لوکیشنز کی بنیاد پر ری چیک کرے گی اور اس کے بعد تمام تنظیمی عہدیداروں اور ضلعی پارلیمانی بورڈ کے ساتھ ایسے ڈیجیٹل نیٹ ورک میں منسلک ہو جائے گی کہ جس میں تمام ممبران نہ صرف ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں گے بلکہ اس نیٹ ورک کے ذریعے تمام ٹیم ممبران کی لوکیشن بھی مسلسل چیک ہوتی رہے گی ۔
قارئین کرام ! تنظیمی معاملات اگر واقعی مخدوم سید علی محمود اور مخدوم سید حیدر محمود جیسے نوجوانوں کو منتقل کر دیئے گئے اور پورے سسٹم کو ڈیجیٹلائز کر دیا گیا تو بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔ اور پھر یہ سارے راز کھل جائیں گے کہ کون کون سے بظاہر انتہائی فعال رہنے والے تنظیمی عہدیداران کتنے گھنٹے ، کتنے دن اور کتنے مہینے اپنے ایریا ، اپنے شعبے اور اپنے لوگوں کے ساتھ گزارتے ہیں ۔ ہمارے اور آپ کے ، سب کے مشترکہ ( خود ساختہ) مرشد ، جناب مرشد سعید ناصر صاحب جیسے عہدیداروں کا پچھلے 3 سال کا ریکارڈ چیک ہوا تو دونوں چھوٹے سائیں ششدر رہ جائیں گے اور اُنہیں پھر کسی سے پوچھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو گی کہ سیاسی و تنظیمی مصروفیات کا 95 فیصد وقت اگر گھوٹکی اور جمال الدین والی میں گذارا جائے گا تو ضلع کی چاروں تحصیلوں اور درجنوں قصبات میں موجود پارٹی کے شعبہ اطلاعات کے عہدیداروں اور پروفیشنل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ضلعی سیکرٹری اطلاعات کی ورکنگ کا لیول کیا ہے ؟

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button