تخلیق کائنات اور زندگی کا مقصد

تحریر : سید ساجد علی شاہ

اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازاہے،خلقِ آدم ؑسے لے کر قیامت تک آنے والے بندۂ اخیر تک اللہ تعا لیٰ کی نعمتوں کا لازوال سلسلہ اپنے بندوں پر جاری رہے گا،ایسی نعمتیں کہ جن کا استحضار و احاطہ کرنا بھی عقل انسانی کے بس میں نہیں,

مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف  رضائے الٰہی ہے اور مومن کی زندگی کا مقصد بھی یہی ہے کہ رب کائنات اس سے راضی ہو جائیں اور اس کا طریقہ قرآن و سنت پر عمل ہے قرآن و سنت پر عمل کے بغیر زندگی بے کار ہے دنیا جہاں کی نعمتیں اور آخرت کے انعامات اس راستے پر چلنے میں ہیں جو اللہ تعالی اور اس کے پیارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں بتایا ہے اور ہمارے لئے سب سے بڑی آسانی ہے کہ آخرت کے امتحان میں آنے والے تمام سوالات کا ہمیں علم ہےہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام وہ  دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی حقیقی ہدایت و فلاح کے لیے متعین کردیا  ہے، جب ہم بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں تو پتاچلتا ہے کہ کائنات ہستی اور اس کا ایک ایک وجود بلا شک و شبہ با مقصد تخلیق کیا گیاہے ۔

موجودات عالم کاکوئی ذرہ ایسا نہیں جس کی پیدائش عبث اور بے مقصد ہو۔ خود قرآن حکیم اس حقیقت کی شہادت یوں دیتا ہے :

وہ جو اٹھتے ،بیٹھتے اور لیٹتے (ہر حال میں )اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ ) اے ہمارے رب ! تو نے یہ (سب کچھ) بے کار اور (بے مقصد ) پیدا نہیں کیا۔
(قرآن مجید، سورہ آل عمران 3، آیت : 191)
یہاں با مقصد تخلیق کا یہ اعتراف تو انسانوں کی زبان سے کروایا گیا ہے ۔ اب خود رب تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں  :
"اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض بے مقصد (اور اتفاقیہ )نہیں بنایا بلکہ ہم نے تو انہیں خاص مصلحت کے تحت بنایا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں”
(قرآن مجید، سورہ دُخان 44، آیت: 39-3)
لہذا اسلامی تعلیمات کے مطابق کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز ایک مخصوص حکمت کے تحت، ایک متعین مدّت تک کے لیے اپنا کام کررہی ہے

 ارشاد ربانی  ہے ” اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫” ترجمہ: بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام  ہے۔ (پ3، اٰل عمرٰن:19)

۔ اللہ  تعالیٰ نے پوری انسانیت کے لیے یہ دین مکمل کر دیاہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:( اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-)ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام بطورِ دین پسند  کیا۔ (پ6، المائدہ:3)

اب  آخرت کی نجات اسلام، بطورِ دین اپنانے اور حضرت محمدمصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت و رسالت پرصحیح ایمان لانے پر موقوف ہے،

جیسا کہ قرآن پاک میں  فرمایا گیا ہے کہ” وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْن”  ترجمہ: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ (پ3، اٰل عمرا ن:85)

اور   رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد(صلی اللہ  تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے، اس امت میں کوئی بھی شخص جو میری نبوت (کی خبر) سنے، خواہ وہ یہودی ہویا عیسائی، پھروہ اس (دین) پر ایمان لائے بغیر  مر جائے جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے  تو وہ جہنمی ہو گا۔‘‘ (مسلم، ص82، حدیث:386) ہدایت و فلاح کی حقیقی  راہ  صرف ’’اِسلام‘‘ ہے،  اس کے علاوہ دیگر تمام راستے  حق و حقانیت سے دور ہیں۔

دین کی ضرورت انسانی تخلیق کے اصل مقصد سے وابستہ ہے۔

 ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس فانی دنیا کی عیش و عشرت سے لطف اندوز ہوناہی مقصدِ حیات  سمجھ رکھا ہے، وہ دین، ایمان، خدااور مذہب کوئی بات تسلیم نہیں کرتے۔ اُن کی نظر میں زندگی کی حقیقت یہی ساٹھ سترسال کا عرصہ کھانے، پینے، عیش و مستی میں گزار دینا ہےحالانکہ یہ صرف جسمانی تقاضے ہیں جوجانوروں میں بھی موجود ہیں بلکہ  بعض اوقات انسانوں سے بڑھ کر پائے جاتے ہیں۔ اسے مقصد قرار دینے کی صورت میں توجانور، انسانوں سے بڑھ کر مقصد ِ زندگی پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ اس نظریۂ ِ حیات میں انسان کا اخلاقی اور روحانی وجود بالکل فراموش ہے، نیز زندگی کے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا کا کوئی تصور نہیں۔ یہ تصورِ حیات انسانیت کی تحقیراور جانوروں کا انسانوں سے بہتر ہونا ظاہر کرتا ہے۔

جسمانی لذات و خواہشات پر اکتفا کرنے والی اس طرز  ِ حیات کا سبب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی   اپنی تخلیق کے مقصد کی طرف توجہ کرنا گوارا ہی نہیں  کرتا تو زندگی آہستہ آہستہ  حیوانیت کی سمت بڑھنا  شروع ہوجاتی ہےاورخواہشات کی تکمیل کے طریقے سوچنا، منصوبے بنانا اورانہیں اپنانا ہی حاصل ِ زندگی بن جاتاہے۔ یہ بہت کم ترمقصد ِ حیات ہے جو عظمت و شرف ِ انسانی کے منافی ہے۔

اس  میں انسانی وجود اور صلاحیتوں کے صحیح استعمال کی کوئی حقیقی ترغیب موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے نظام ِ زندگی میں اگر قانون کا ڈنڈایاہمہ جہت اخلاقی تربیت ہوگی  تو لوگ امن و سکون سے رہیں گے ورنہ جہاں قانون کمزور  اور نظام ِ تربیت مفقود ہوا،

وہاں شر کو خیر پر غلبہ پانے اور انسان میں موجود حیوانیت و بہیمیت ظاہر ہونے میں کچھ دیر نہیں لگے گی۔ اس لئےصرف قانون اور اخلاقی تربیت کے ستونوں پر پوری انسانی زندگی کی بنیادرکھنا درست نہیں کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاں قانون موجود نہیں وہاں  برائی سے رُکنا نہیں پایا جائے اور جہاں تک اخلاقی تربیت کا تعلق ہے تو اُس کی حقیقت  ایک خاص انداز پر ذہنی سوچ ڈھال دینا ہے لہٰذا یہ امر بآسانی ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذاتی و مادی مفادات کی خاطر اخلاقی قوانین  کا اِنکار کردے۔

ایسی صورت میں کوئی اُس کا کیا بگاڑ سکتا ہےاور کون اسے اخلاق کی پیروی پر مجبور کرسکتا ہے؟  دوسری طرف اسلامی نظریہ حیات ہے جو خدا کا وجود تسلیم کرنے اور آخرت میں اعمال کا صلہ پانے پر مبنی ہے، جس میں دنیا کی فانی زندگی، آخرت کی دائمی  زندگی کےلئے کھیتی کی مثل قرار دی گئی ہے کہ جو دنیامیں بوئے گا وہی آخرت میں  کاٹے گا۔

دونوں نظریہ ِ حیات کا فرق اِس مثال سے یوں سمجھیں کہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ اولاد کو ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے۔ یہ اخلاق  دو طرح عمل میں آسکتا  ہے،

ایک تو اسلامی انداز میں کہ یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ فرض ہے لہٰذا اسے پورا کرنا ضروری ہے ورنہ خدا کی بارگاہ میں جواب دینا ہوگا۔ یہ اسلامی سوچ جب تک زندہ ہے تب تک خدمت ِ والدین کےلئے لازمی مُحَرِّک  ہو گی اورمسلمان جب تک مسلمان ہے وہ بارگاہِ الٰہی میں اِس کی جواب دہی کا انکار نہیں کرسکتا، اِس کے برعکس ماں باپ کی خدمت  صرف اخلاق پر چھوڑ دیں تو لادین معاشرے کے لوگ اپنی لادینیت پر رہتے ہوئے جو کچھ اِس وقت کررہے  ہیں، وہ یہ ہے کہ  بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ہوم میں داخل کرا کے اور ماہانہ یا سالانہ ملاقات کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں

اس پرفتن دور میں لازم طریقہ یہ ہے کہ بندہ خود کو کسی ایسے ولی کامل، شیخ طریقت کے سپرد کردے، جس کی زندگی خالصتاً اتباعِ سنت میں گزری ہو، کیونکہ اخلاقِ رزیلہ در حقیقت روحانی بیماریاں ہیں اور جس طرح بیماری کا علاج خود کرنا نقصان دہ ہوتا ہے، اس کے لیے کسی اچھے ڈاکٹر کی طرف رہنمائی ضروری ہوتی ہے تو اسی طرح ان روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے یہ ولیِ وقت اچھے طبیب کی مانند ہوتے ہیں جو نہ صرف ان بیماریوں کا علاج کرتے ہیں، بلکہ پرہیز کرواکے ان بیماریوں کو دوبارہ لگنے سے بچاتے بھی ہیں۔

مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے جو اس کی زندگی میں سدھار کا ذریعہ اور بگاڑسے دوری کا سبب بنتی ہے اور وہ ہے ’’موت کی یاد ‘‘،کیونکہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی منکر ہو سکتا ہے، مگر موت کا کوئی منکر نہیں۔ اور جب مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد اللہ کے دربار میں حاضری دینی ہے تو پھر انسان ہر وقت اسی خیال میں رہے گا کہ کوئی ایسا امر سرزد نہ ہوجائے جو پکڑ کا باعث بن جائے اور اپنے رب کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔

آخری کلمات ایک مسلمان اگر اپنے لیے یہ نظامِ زندگی بنالے تو دنیا میں کسی بھی میدان میں خسارے کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا اور آخرت میں بھی خوشی خوشی رب کی رضا کے ساتھ جنت کے مزے لوٹے گا۔اور اگر اپنی زندگی ایسے ہی چھوڑدی جیسے چوپائے گزارتے ہیں اور شریعت کی جانب سے مقرر دستورِ حیات کو بروئے کار نہ لائے تو اس چمک دَمک کی دنیا میں بھی ہمیشہ تاریکی میں رہے گا اور آخرت میں عقاب وعذاب کا خود کو مستحق بنائے گا ۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button