رحیم یارخان کا پتن منارہ قدیم شہر موئن جودڑو اور ہڑپہ کا ہم عصر رہا ہے

پتن منارہ

رحیم یارخان شہر سے قریبا ًچھ میل جنوب مشرق میں صحرائے چولستان کے خشک شدہ دریائے ہاکڑ ہ کے کنارہ ایک عظیم الشان قدیم شہراوراہم دریائی بندرگاہ کے کھنڈرات موجود ہیں.

یہ مقام اپنی باقیات اور دس میل کے حلقہ کے اندر موجود قدیم آثار کے اہم گروپ بندور،دروازہ ،کھوکھار کی وجہ سے اس دھرتی یا سر زمین کا نہیں بلکہ عالمی قدیم تاریخ کا ایک فقید المثال مظہر بن گیا ہے ۔

یہاں پر قدیم ہندو ،بدھ اور اسلامی عہد کی اہم نشانیان زبان حال سے گزشتہ زمانوں اور نسلوں کے تمدن او رشان وشوکت کی داستانیں سنا رہی ہیں دنیا کے تما م بڑے بڑے شہر عہد قدیم میں دریائوں کے کنارے آباد کئے گئے اور مختلف علاقوں کی تہذیبیں دراصل دریائوں کی ہی تہذیبیں کہلاتی ہیں ۔

پتن منارہ

اس اعتبار سے پتن منارہ دریائے ہاکڑہ کی وادی کااپنے تمدنی امتیازات کی وجہ سے پاکستان کے قدیم ماضی کا ایک شاندار تاریخی ورثہ ہے پتن منارہ کے کھنڈرات سے بدھ مت کی ایک پختہ خانقاہ کے آثار بھی ملے ہیں لہٰذہ اخلاقی اور روحانی طور پربھی اس کا ایک اونچا مقام ہے کیوں کہ یہاں پر نیکی، سچائی ،پاکیزگی اور پر ہیزگاری کا دور بھی گزرا ہے ۔

یہاں پر تعلیمی اور تبلیغی مراکز بھی قائم تھے اور ثقافتی ،مذہبی تہوار منائے جاتے تھے شیوارتری کا تہوار بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا سرسوتی دیوی کی بیٹی مہادیوی کا قصہ بھی اس قدیم شہر پتن منارہ سے منسوب ہے پتن شہر دریائوں کے مقام اتصال پر واقع تھا اور اسی دریائی محل وقوع کی وجہ سے اسے بے حد سیاسی ،عسکری اور تجارتی اہمیت حاصل ہوگئی تھی .

پتن منارہ کا قدیم شہر وادی سندھ کے عین وسط میں ہونے کی وجہ سے موئن جودڑو اور ہڑپہ کا ہم عصر رہا ہے ۔مگر پھر ایسا ہو ا کہ چولستان کا دریائے ہاکڑہ خشک ہو گیا اور اس جفرافیائی تبدیلی نے اعلی تہذیب وتمدن کے اس گہوارہ پر ویرانیاں مسلط کر دیں

پتن منارہ
پتن منارہ

 اب یہ ایک مدفون شہر کے چند کھنڈرات اور آثار سے زیادہ کچھ نہیں جہاں پر بارش کے بعد لوگ عہد قدیم کے سکے پتھر اور دھات کی دوسری قیمتی اشیاء تلاش کرنے جاتے تھے مگراب موجود ہ حکمرانوں اور بااثر لوگوں کی بے قدری نے وہاں پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے اور بے رحمانہ کھدائی اور الٹ پلٹ سے جہاں ان آثار کا ستیا ناس کر دیا ہے وہاں قدیم آثار کے متلاشیوں کے خواب بھی چکنا چو ر کر دیئے ہیں

اکثر مورخین سکھر اور روہڑی کے قریب پہاڑی پر موجود شہر کے آثار کو الور کہتے ہیں اور اسے میوسی کینس کادارا لحکومت خیال کرتے ہیں ۔

مگر متعدد مورخین نے جن میں لسمبرگ بھی شامل ہے اس سے اختلاف کیا ہے وہ’’ الور‘‘ کی موجود ہ جائے وقوعہ کو میوس سمجھتے اورکہتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں سیوں سانگ(چینی سیاح) گجرات وکا ٹھیا واڑ سے ایک خاص فاصلہ طے کرکے پہنچاتھا ۔

علاوہ ازیں ممتاز مورخ ودانشور سید نور علی ضامن حسینی مرحوم نے تاریخی اور جغفرافیائی شہادتوں کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ اس کی عمارت ،قلعہ اور کئی میل میں پھیلی ہوئی نشانیوں اور باقیات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو سندھ میں اس سے زیادہ خوبصورت معیاری،وسیع اور خوشحال شہر کے آثار اور کہیں نہیں ملتے ۔

پتن منارہ کی تاریخ
پتن منارہ کی تاریخ

سکندر اعظم نے اسی شہر کو اپنا دوسرا بڑا مرکزبنا یا اور جنوب مغربی علاقوں کے حاکم آکسی کینس کے خلاف فوجی مہم کا آغا ز بھی پتن منارہ ہی سے کیاکیوں کہ ایرانیوں کے ایک حلیف کی حیثیت سے سکندر اعظم کے لیے اس کا زیر کرلینا بہت ضروری تھا ۔

لیسمبرگ کا یہ بھی خیال ہے کہ سکندر کے عہد کا شہر جسے یونانی ’’بیناگارا‘‘کہتے ہیں بھی ’’الور‘‘کے قریب ہی تھا ۔اگر سید نور علی ضامن حسینی کی رائے کو صحیح خیا ل کیا جائے تو پھر پتن کے قریب علاقہ بندور کو "بینا گارا” تسلیم کرنا پڑ ے گا ۔

علاوہ ازیں کھوکھار ،دروازہ ،اور بندورکے قدیم آثار اور نشانیاں پتن کے دس میل کے اندر اندر موجود ہیں ۔جن سے پتن کی وسیع منصوبہ بندی کی شہادت ملتی ہے ۔غلہ کے گودام ،فروش گاہ افواج ،محلات اور معبدالگ الگ سمتوں میں تعمیر کئے گئے تھے ۔

اگر ان شواہد کو سامنے رکھ جائے تو چینی سیاح کی آمد کے وقت بھی سندھ کا دارالحکومت یہی شہر پتن منارہ قرار پاتا ہے ۔جیسا کہ ہیون سانگ نے اپنی یاداشتوں میں اس شہر کو ’’پی پین پولو‘‘کا نام دیا ہے ۔

ماہر ین کے نزدیک پتن منارہ بدھ معبد کی عظیم عمارت کا بلندوبالا ٹکڑ ا ہے’’ سر آرل سٹائن نے تو برصغیر

میں اس عمارت کو دوسری صدی عیسوی کی بہتر ین تعمیرات میں شمار کیا ہے ۔

بڑی بڑی پختہ انیٹوں کی یہ عمارت جس کی کرسی موجودہ سطح زمین سے پندہ فٹ بلند ہے اور اس کے اوپر 26فٹ بلند عمارت 12مربع فٹ عرض کے ساتھ موجو د ہے ۔موجودہ کھنڈ ر کے اردگر د گول محر ابوں کے نشانات سے ظاہر ہو تا ہے کہ موجودہ برج جو دُور سے اب تک مینار معلوم ہوتا ہے کسی عظیم مرکزی عمارت کا ایک حصہ ہے ۔اور اس ایک ٹکڑے سے اعلی طرز تعمیر کا انداز لگا یا جا سکتا ہے ۔

Patan Minara Rahim yar khan
Patan Minara Rahim yar khan


‘‘کرنل ٹاڈ وقائع راجھستان نے دسویں صدی عیسوی میں پتن کو ایک ہندو راجہ کا پایہ تخت بیان کیا ہے ۔انہوں نے وہاں پر ایک شاندار معبد کا تذ کر ہ کیاہے اور کہا ہے کہ اس عمارت کی جانب مشرق میں ایک بہت بڑے قلعے کے آثار موجود ہیں ۔درمیان میں ایک اونچی اور مرکزی جگہ ایک ہندو مندر تھا جہاں شیو ارتری کا تہوار ہر سال دھوم دھام سے منایا جاتا تھا ۔ دور دور سے ہند و حکمران رئوسا یہاں حاضر ی دیا کرتے تھے .

سندھ بیکا نیر اور جیسلمیرکے مہار اج گان اس مندر پر حاضری کو بہت بڑی سعاد ت خیال کرتے تھے ۔کرنل منچن جو ریاست بہاول پور میں متعین انگریز ریذیڈ نٹ تھے بیان کرتے ہیں کہ پتن کی بدھ عمارت کے اندرونی پلستر کو اکھاڑنے سے وہاں کچھ سندھی عبارت درج پائی گئی جس کے متن کا مفہوم کچھ اس طرح تھا میں نے ہر قسم کے منافع سے آدھ آنہ فی روپیہ مندر کو بجھوانے کا اقرار کیاکرنل منچن کہتے ہیں کہ اس عمارت سے یہ بھی انداز ہو تا ہے کہ 1559ء اور 1569ء میں کچھ اشیاء یہاں بہت دور سے لائی گئیں ۔

عمارت میںشیروں کے سروں کی تصویر بھی بنی ہوئی تھیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت کئی منزلہ تھی ۔اور اس کے نیچے کئی تہہ خانے تھے ۔موجودہ حصہ مرکزی عمارت کا وسطی حصہ تھا ۔جس کے چاروں طرف خوبصورت برج تھے ۔جو اوپر جا کر مرکزی عمارت کا حصہ بن جاتے تھے۔ پتن منارہ کے اس موجود ٹکڑ ے کے حسن تعمیر کو دیکھ کر صدی پہلے اس کے ایشیائی حسین اور شاندار عمارت ہونے کایقین ہوجاتا ہے ۔

مسلم دور مغل بادشاہ اکبر کی عہد کی سندات سے پتہ چلتا ہے ۔کہ یہ شہر پتن پور کہلاتا تھا ۔آئین اکبری میں صوبہ سیوستان کے ایک پر گنہ کے طورپر پتن پور کاذکر ملتا ہے ۔یہ بھی مشہور ہے کہ فتح سومنات کی طرف جاتے ہوئے سطان محمود غزنوی بھی اسی راہ سے گزرا تھا ۔

معلوم ہوتا ہے کہ دریا خشک ہوجانے سے اس علاقہ کی تما م زرعی اقتصادی تجارتی اور عسکری اہمیت ختم ہوگئی ۔اور صر ف کہانیا ں اور قدیم معبد اور کھنڈرات باقی رہ گئے ۔

اور جب عباسی دائود پوترئوں نے 1702ء میں ریاست بہاول پور کی بنیاد ڈالی تو اسوقت بھی اس شہر میں بد ھ عبادت گاہ اور ہندو مند ر موجو دتھے ۔

واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک عباسی دائود پوتر ہ سردار فضل علی ہلانی نے بدھ خانقاہ اور ہندو مندر کی پختہ اینٹیں اکھڑ و اکر دین گڑھ اور بھاگلہ کے قلعوں کی تعمیر میں استعمال کرائی تھیں ۔کہتے ہیں کہ 1876ء میں کرنل منچن نے بدھ معبد کو کھنڈرات کے قر یب کھدائی کرائی تھی ۔لیکن کوئی خاص چیز نہ ملی اس دوران کچھ لیس دارمادہ برآمد ہوا ۔جس پر بڑی بڑی زہریلی مکھیاں تھیں جن کے کاٹنے سے کئی مزدور موقع پر ہی ہلاک ہوگئے ۔اس لیے کا م بند کر دیا گیا ۔

گزٹیئر1904 کے مطابق یہ شہر ایک سومربع میل پر محیط ہونے کی روایات معروف ہیں ۔پتن کے نواح میں پانچ میل دور کھوکھار ،چار میل دور بندور اور مشرق کی جانب پانچ میل کے فاصلہ پر دروازہ کے نام سے قدیم آبادیوں کے نشانات ہیں ۔بندور میں غلہ گودام کے آثار ہیں ۔جورعایاسے جمع کی جاتی تھی ۔

کھوکھار کے آثار سے کچھ واضح نہیں ہوتا دروازہ شہر میں راستہ بیان کیا جاتاہے ۔کرنل ٹاڈ جس پتن کا ذکر کرتا ہے وہ پتن دسویں صدی عیسوی میں سومرہ سمیت میں کسی ریاست کا صدر مقام رہا ہو گا ۔دسویں صدی میں سومرہ قبیلہ نے پتن کو دوبارہ تعمیر کیا اور جس کا یہ دار الخلافہ رہا ۔

پتن کو پتن پوربھی کہا گیا جیسا کہ اکبر کے دور کے کچھ ریکارڈ میں ملتا ہے جو کہ اسکے آس پاس رہنے والے لوگوں کے قبضے میں ہے لیکن آئین اکبری میں پتن کا ذکر کہیں نہیں ملتاماسوائے ایک مقام کہ سیوستان کاسر کا ر جو کہ یہ پتن ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔

ایک روایت کے مطابق غزنی کا محمود سومنات کو جاتے ہوئے جب پتن سے گزرا تو وہ ہاکڑہ کی جنوب مغربی شاخ کی طرف سے آگے بڑھا ۔جو کہ ان دنوں بہتی تھی۔ اور اسکی فوج اتنی زیادہ تھی کہ جو گھوڑے آگے بگھیوں میں لگے ہوئے تھے وہ گھاس کھاتے تھے جبکہ پیچھے آنے و اے گھوڑوں کو زندہ رہنے کے لے آگے والے لدھ کے پر گزار ہ کر نا پڑتاتھا ۔

ہندو راجے اور سندھ کے سردار بیکا نیر اور جیسلمیر اٹھارہویں صدی کے آغاز تک اس مینار پر آیا کرتے تھے اور یہاں سالانہ میلہ منا یا جاتاتھا منگھ کے مہنیے میں جسے سیوارتری کہا جاتاتھا

ان دنوں پنج کو دریائے سند ھ کا اضافی پانی ملتا تھا اور پتن ایک پر کشش علاقہ تھا وہاں ایک سات کمروں پر منتقل کھوکھلی عمارت تھی ۔

ہر کمرے کی چھت اور فرش پتھر کے تھے ان کے درمیان دو تالاب بنے ہوئے تھے جنہیں اس میلے کے دوران ایک کو دو دھ اور دوسرے کو پانی سے بھر دیا جاتا تھا اور ایک بابا رتہ یا حاجی رتہ یہ مقدس دودھ اور پانی آنیوالوں میں تقسیم کر تا تھا.

نواب محمد بہاول خان سوئم کے دور حکومت (1840)میں اوگر ذات کے ایک جوگی کے حوالے تھا اس مقدس عمارت کا انتظام کرتاتھا ۔کہاجاتاہے کہ اس نے خود کو نمک کے ایک ڈھیر میں دفن کر کے اپنی زندگی ختم کر لی ۔جوگی کے شاگردوں نے پرانی رسومات ترک کر دیں اور وہاں لنگ مڑھی بنا دی ۔

اس سے بانجھ ہندو عورتیں جو بچے جننا چاہتی ہو ں ٹھیک ہو نے لگیں ۔لنگ پوجا اتنی مشہور ہوئی کہ مسلم عورتوں نے بھی ماڑھی آنا شروع کر دیا اس وجہ سے روایتی مسلمانوں کے غصے کو ہوا ملی اورانہوں نے اس عمارت کو تباہ کر دیااور اسکے کھنڈر پر مسجد تعمیر کر دی ۔

قصبہ سرواہی

ایک تاریخی قصبہ سرواہی ہے یہاں ایک کنویں کی کھدائی سے ایک کتبہ برآمد ہوا جو 1413 ء سمہ حکمران جام سکندر نے سرواہی میں پختہ اینٹوں کا ایک کنواں بنوایا تھا جس پر سرائیکی زبان کے یہ تین شعر کنداں تھے ۔

سلاں سل بند تھیاں پھگیا نام نصیر  
وقت سکندر بادشاہ ملک دھنی پہلوان
رعیت راضی ایہہ جہی جو پیدا نت جوان
ہک لکھ سلاں لگ چکیاں تھیا کھوہ تمام
ترائے سو بوٹی باغ دی رادھی انڑ جام

سٹیٹ گزٹیئر مطبوعہ 1904 کے مطابق سندھی لوک کہانی مو مل اور مہندرا کا ایک کردار” مہندرا” سرواہی کا ایک سردار تھا اس وقت ” ھمیر سومرا ” پتن منارہ کا حکمران تھا۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button