رحیم یارخان کے ‘‘فرزند اقبال’’ کی ‘‘ٓانور رٹول’’ سیاست

ناشتہ /عقاب صحرائی

شام کی چائے میں باربی کیو سے تواضح کے بعد اگر آم کا تحفہ بھی پیش کر دیا جائے تو مہمانی اور میزبانی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے اور اگر پیش کیئے گئے آم ‘‘انور رٹول’’ ہوں تو کیا ہی کہنے !

ہمارے ساتھ یہ ‘‘حسن سلوک’’ جعفر آباد میں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری محمد جعفراقبال کی رہائش گاہ پر کیا گیا ، جے یوآئی ف پنجاب کے سابق صوبائی جنرل سیکرٹری چیئرمین عوامی پارلیمنٹ علامہ عبدالرئوف ربانی کے ساتھ چوہدری صاحب کے ہاں منعقدہ فکری نشست خوب رہی کہ فوڈ فار گڈ ٹیسٹ کے ساتھ فوڈ فار تھاٹ کا بھی خوب اہتمام تھا۔

پاکستانی چونسہ ، دسہری ، سندھڑی ، لنگڑا اور بھارتی الفانسو ،کیسر، طوطا پری اور بنگانہ پلّی سمیت بہت سے اعلیٰ کوالٹی کے آم دنیا بھر میں اپنے ذائقے کی وجہ سے بہت مشہور ہیں لیکن انور رٹول کی ایک اپنی ہی لذت ہے ۔ چونسہ ، سندھڑی وغیرہ جیسے بڑے آم زیادہ کھا لیئے جائیں تو ایک طرح سے گرانی کی کیفیت ہو جاتی ہے لیکن انور رٹول اس حوالے سے منفرد آم ہے کہ ڈٹ کر کھانے کے باوجود آپ نہ صرف بیزار نہیں ہوتے بلکہ اس کا ذائقہ تادیر دل ودماغ کو ‘‘معطر’’ رکھتا ہے۔

قارئین کرام ! اگر یہ کہا جائے کہ جنوبی پنجاب خاص طور پر ضلع رحیم یارخان کے سیاستدانوں میں چوہدری محمد جعفراقبال کی سیاست بھی ‘‘انور رٹول’’ جیسی ہے تو بےجا نہ ہوگا ، ان کے ساتھ اور بعد کے برسوں میں بہت سے ‘‘چونسے’’ ، ‘‘سندھڑی’’ اور ‘‘ لنگڑے’’ ‘‘مارکیٹ’’ میں آئے اور ‘‘آم آدمی’’ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن لوگوں کا ان سے جی بھی جلد ہی بھر گیا ، ‘‘انور رٹول’’ اگرچہ مارکیٹ میں کم آتا ہے لیکن اس کی ویلیو کم نہیں ہوتی ۔

قارئین کرام ! آم ہمارے برصغیر میں پیدا ہوا اور پھر دنیا بھر میں پھیل گیا ، 4 ہزار سال پہلے تک آم کی موجودگی کے ثبوت مل چکے ہیں ، قدیم سنسکرت ادب میں آم کا ذکر الوکک یعنی ‘‘غیر مرئی محبت’’ کی علامت کے طور پر آتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں اپنے پیاروں کو آم کا تحفہ بھجوانا ایک روایت سی بن گئی ہے ۔ انور رٹول بھارتی دارالحکومت سے 60 کلومیٹر دور ایک قصبے رٹول کی مناسبت سے انور رٹول کہلایا کہ جو انورالحق نامی مسلمان کاشتکار کے باغ میں پیدا ہوا تھا ، رٹول قصبہ بھارتی ریاست اُترپردیش کے میرٹھ ڈویژن کے ضلع باغپت کی تحصیل کھیکاڑا میں واقع ہے ، انتظامی طور پر یہ قصبہ اُترپردیش میں ہے لیکن وسیب کے اعتبار سے یہ دہلی کا مضافات ہے ، 1947 میں قیام پاکستان کے دوران انورالحق ہجرت کر کے پاکستانی پنجاب کے ضلع ملتان آگئے اور اپنے ساتھ انور رٹول آم کی گٹھلیاں بھی لے آئے ، یہاں آکر اس مہاجر باغبان نے اس منفرد ذائقے کے آم کی ، قلموں کے ذریعے خوب افزائش کی اور پھر رفتہ رفتہ یہ انور رٹول کے نام سے پورے ملک میں مشہور ہوگیا ، یہاں تک کہ پاکستانی سربراہان مملکت چونسہ جیسے دوسرے خوش ذائقہ آموں کے ساتھ ساتھ انور رٹول آم بھی تحفے میں غیر ملکی حکمرانوں کو بھجوانے لگے ۔

ہم نہ غیر ملکی تھے ، نہ حکمران ، اس کے باوجود چوہدری محمد جعفراقبال نے ہمیں انور رٹول کا تحفہ دیا ۔۔۔۔ اس عنایت پر چوہدری صاحب کا شکریہ ۔۔۔ لیکن کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں جو گفتگو ہوئی وہ اس تحفے سے بھی کہیں زیادہ ‘‘ذائقے دار’’ تھی اس لیئے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔۔ ایک طرف قومی پارلیمنٹ کا سابق ڈپٹی اسپیکر تھا تو دوسری طرف عوامی پارلیمنٹ کا چیئرمین ۔۔ اس لیئے گفتگو کا سلسلہ بھی قومی اور مقامی یعنی سلطانی اور عوامی دوںوں رنگوں سے ‘‘رنگا’’ گیا ، قومی اور علاقائی سیاست کے ماضی ، حال اور مستقبل کے حوالے سے جاری رہنے والی اس ‘‘گپ شپ’’ کا زیادہ تر حصہ چونکہ ‘‘آف دی ریکارڈ’’ تھا اس لیئے ہم اس کی تفصیل تو بیان نہیں کر سکتے تاہم ‘‘ناشتہ’’ کے قارئین کی دلچسپی کیلئے اشاروں کی زبان میں کچھ مرچ مصالحہ ضرور پیش کریں گے کہ ‘‘ریکارڈ’’ بھی ‘‘آن’’ نہ ہونے پائے اور بطور کالم نویس ہم اپنے قارئین یا ‘‘آم آدمی ’’ کی ‘‘انور رٹول’’ قسم کی ‘‘قلمی خدمت’’ بھی انجام دینے کا حق ادا کر دیں ۔

قارئین کرام ! قومی پارلیمنٹ کے سابق ڈپٹی اسپیکر اور عوامی پارلیمنٹ کے چیئرمین کی اس اہم ملاقات کی نیوز کوریج تو آپ این پی نیوز اور پرنٹ میڈیا میں ملاحظہ فرما ہی چکے ہیں ، تاہم جو باتیں خبر کا حصہ نہیں بن سکتیں وہ ‘‘اشارں کی زبان ’’ میں ہم آج کے اس کالم کی زینت بنائیں گے ،

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوہدری محمد جعفراقبال اور علامہ عبدالرئوف ربانی کے درمیان قومی اور مقامی سیاست کے ماضی ،

حال اور مستقبل کے بارے میں جو گفتگو ہوئی اس میں زیادہ توجہ حال اور مستقبل کے درمیان مرکوز رہی ۔۔۔۔ حال اور مستقبل کے ‘‘درمیان’’ والی اصطلاع کی گٹھلی چونکہ ‘‘آم آدمی’’ کیلئے نہیں ،

اس لیئے یہ وضاحت کر دینا زیادہ مناسب ہوگا کہ حال اور مستقبل کا ‘‘درمیان’’ دراصل ‘‘مستقبل قریب’’ کیلئے بولا جاتا ہے ۔ قومی حوالے سے تو اتنا اشارہ ہی کافی ہے کہ چوہدری محمد جعفراقبال نے خطے کی تشویشناک صورتحال پر گفتگو کے سیشن میں ایک موقع پر بے ساختہ کہا کہ

‘‘میں روزانہ صبح نماز فجر کے بعد سب سے پہلے ملکی سلامتی کی دعا مانگتا ہوں کہ یا اللہ ملک و قوم کو اس سخت امتحان سے خیریت کے ساتھ گذار دے!’’

جہاں تک مقامی سیاسی صورتحال اور امن و امان کا تعلق ہے ، علامہ عبدالرئوف ربانی کی گفتگو بہت زوردار تھی ، ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہونے کے حوالے سے چوہدری محمد جعفراقبال نے گذشتہ دو تین عشروں کے دوران جن عام انتخابات میں حصہ لیا اُن کے تناظر میں سابق ایم این اے میاں عبدالخالق مرحوم سے وابستہ کچھ خوشگوار یادیں بھی تازہ کی گئیں ،

بلدیہ رحیم یارخان کی چیئرمینی کے حوالے سے سن 90 کے عشرے کے اوائل میں بننے والے انقلابی اتحاد کا بھی ذکر ہوا اور عام انتخابات میں محترمہ زیب جعفر پر کیئے گئے حملے اور اس دوران اختیار کی گئی دوراندیشانہ حکمت عملی پر بھی بات ہوئی ،

چوہدری محمد عمر جعفر کے ایم پی اے منتخب ہونے اور گذشتہ عام انتخابات کے دوران سامنے آنے والے کئی اہم واقعات بھی شیئر کیئے گئے جن میں سے کچھ کی تو علامہ عبدالرئوف ربانی جیسی ‘‘خبردار شخصیت’’ کو بھی خبر تک نہیں تھی ۔

مسلم لیگ ن شعبہ خواتین کی سابق مرکزی صدر محترمہ عشرت اشرف صاحبہ کی طرف سے رحیم یارخان کے لوگوں کے کام کروانے کیلئے ذاتی دلچسپی لینے اور کوئیک رسپانس کا بھی ذکر ہوا اور اس کی گواہی خود علامہ عبدالرئوف ربانی نے بھی ایک واقعہ سنا کر دی ۔

دریائے سندھ کے کچہ ایریا میں اغوا برائے تاوان گینگز کی سرگرمیاں تیز ہوجانے کا ذکر بھی ہوا اور سیاسی دبائو کی وجہ سے تھانوں میں من گھڑت ایف آئی آرز کے اندراج کی بڑھتی ہوئی وبا کے حوالے سے سینہ بہ سینہ چلنے والے کئی اہم واقعات بھی شیئر کیئے گئے ۔ اس دوران روجھان سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی سردار ریاض محمود خان مزاری اور صادق آباد سے پیپلزپارٹی کے منتخب ایم این اے مخدوم سید مرتضیٰ محمود کا بھی ذکر ہوا ،

جنوبی پنجاب اور خاص طور پر ضلع رحیم یارخان کی سیاست میں سابق گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود کے حوالے سے بھی دونوں شخصیات نے کچھ پرانی یادیں تازہ کیں ، یہ گفتگو جاری تھی کہ ہمیں بے اختیار جمال الدین والی کے باغات کی خاص پہچان ‘‘لب شیریں آم’’ کی یاد آگئی ۔

قارئین کرام ! ضلع رحیم یارخان میں جب بھی آموں کی نمائش لگی ، جمال الدین والی کے سٹال پر ‘‘لب شیریں’’ ضرور موجود ہوتا تھا ، اس آم کا نام جس کسی نے بھی رکھا ، جمال الدین والی سے اس کی ایک خاص نسبت ہے کہ مخدوم المک سید غلام میراں شاہ مرحوم کی جو سیاسی میراث مخدومزادہ سید حسن محمود مرحوم اور پھر مخدوم سید احمد محمود کو منتقل ہوئی اُس میں انتہائی مہذبانہ اور ‘‘لب شیریں’’ قسم کا اندازِ گفتگو بھی شامل ہے،

آج کل کی تلخ لب ولہجے والی سیاست کی وبا میں مخدوم سید احمد محمود جیسے سدا بہار سیاست دانوں کی سلجھی ہوئی اور شیریں لب و لہجے والی سیاست کی اہمیت اور قدر وقیمت بہت بڑھ گئی ہے ،

انور رٹول
انور رٹول

اس لیئے یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ اگر قومی و مقامی سطح پر چوہدری محمد جعفراقبال کی ‘‘انور رٹول ’’ سیاست کے قدردان بہت ہیں تو جنوبی پنجاب میں مخدوم سید احمد محمود کی ‘‘لب شیریں’’ سیاست کے چاہنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ۔

قارئین کرام ! چوہدری محمد جعفراقبال اور مخدوم سید احمد محمود میں ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ ان دونوں رہنمائوں نے انتخابی سیاست سے ذاتی طور رضاکارانہ یا خودساختہ ‘‘ریٹائرمنٹ’’ لے رکھی ہے،

اگر ان جیسی بڑی شخصیات خود بھی قومی اسمبلی میں ضلع رحیم یارخان کی نمائندگی کریں تو اس فیصلے کے اپنے اثرات ہیں ، کچھ عرصے سے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی طرف سے اپنے ان دونوں رہنمائوں کی اس ‘‘رضاکارانہ ریٹائرمنٹ’’ پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جانے لگا ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دونوں شخصیات اپنے چاہنے والوں کے اس جذبے کے ساتھ کیا ‘‘سلوک’’ کرتے ہیں ۔

قارئین کرام ! ریٹائرمنٹ کا زیادہ تر تعلق عمر کے ساتھ ہوتا ہے اور سیاست دنیا کا واحد شعبہ ہے کہ جس میں یہ فارمولا اُلٹ ہے ، بندہ جتنا زیادہ سینئر ہوتا جائے اُتنا ہی زیادہ ‘‘کندن’’ بنتا جاتا ہے ، مشہور انگریزی مقولہ ہے کہ

Age is a state of mind.

یعنی عمر ایک ذہنی کیفیت ہے ، جس کا مطلب ہے کہ آپ بڑھاپے میں بھی ‘‘جوان’’ ہو سکتے ہیں اور جوانی میں بھی ‘‘بڑھاپا’’ آپ پر مسلط ہو سکتا ہے، مخدوم سید احمد محمود تو دیکھنے میں بھی ‘‘جوان’’ لگتے ہیں جبکہ مسلسل تازہ دم چوہدری محمد جعفر اقبال کی قومی سے مقامی سطح تک آج بھی جاری بھاگ دوڑ دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ پینتیس چالیس سال پرانے سیاستدان ہیں ۔

دونوں رہنمائوں میں ایک قدر مشترک اور ہے ۔۔۔ اور وہ یہ کہ دونوں نے خود الیکشن لڑنے سے رضاکارانہ یا خود ساختہ ‘‘ریٹائرمنٹ’’ لے رکھی ہے ، دونوں رہنمائوں کے اپنی اپنی پارٹی قیادت سے اتنے قریبی تعلقات ہیں کہ قومی اسمبلی کے کسی بھی حلقے سے ٹکٹ لینا بھی کوئی مسئلہ نہیں ، رحیم یارخان ، لیاقت پور ، خانپور اور صادق آباد چاروں تحصیلوں میں کئی ایسے حلقے ہیں کہ جہاں سے مخدوم سید احمد محمود باآسانی کامیاب ہو سکتے ہیں ، لاہور، منڈی بہائو الدین ، خانپور اور رحیم یارخان میں ایسے ہی کئی حلقے چوہدری محمد جعفراقبال کی بھی راہ تکتے رہتے ہیں ، مخدوم سید احمد محمود کی اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ ذاتی و خاندانی قربت سے حسد کرنے والوں کی کوئی کمی ہے نہ چوہدری محمد جعفراقبال کی اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ ذاتی و خاندانی قریبی تعلق سے حسد کرنے والے کم ہیں ، حاسد حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں لیکن جس کی قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے وہ اُسے مل کر رہتا ہے ، چوہدری محمد جعفراقبال کے خاندان کو شریف خاندان خاص طور پر میاں محمد نواز شریف ، مرحومہ کلثوم نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف سے دور کرنے کیلئے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان سمیت کئی اہم ن لیگی شخصیات نے بہت جتن کیئے، پچھلے دو تین عشروں کے دوران اس حوالے سے سازشوں کے کئی جال بھی بچھائے گئے ، اس دوران کئی اپنے بھی اس ‘‘کھیل’’ میں شامل ہوئے لیکن کسی کو کوئی کامیابی نہ ملی ، کہتے ہیں کہ رحیم یارخان سے مسلم لیگ ن کے سابق رکن قومی اسمبلی میاں امتیاز احمد کی چوہدری نثار علی خان سے قربت کی بنیادی وجہ بھی یہی ‘‘مشترکہ جذبہ’’ تھا ۔ پچھلے ماہ محترمہ مریم نواز شریف اسلام آباد میں چوہدری محمد جعفر اقبال کی رہائش گاہ پر تشریف لائیں ،اور تین چار گھنٹے تک تفصیلی گپ شپ اور مشاورت کی ، سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے محترمہ مریم نواز شریف پر انتہائی سخت پابندی ہے کہ وہ کہیں بھی جائیں لیکن پانی کا ایک گلاس بھی وہاں سے نہ پیئیں ، اس کے باوجود انہوں نے دوپہر کا کھانا چوہدری محمد جعفراقبال کے ہاں فیملی کے ساتھ کھایا ۔ اس سے بھی چوہدری محمد جعفرا قبال کے خاندان پر پارٹی قائدین کے اعتماد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ۔۔۔۔ کیسی دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری محمد جعفراقبال کا خاندان آج بھی میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف کے اُتنا ہی قریب ہے جتنا کل تھا، لیکن سازشیں کرنے والے حاسد خود ‘‘نُکرے’’ لگے بیٹھے ہیں ۔

قارئین کرام ! کالم کے عنوان میں ہم نے چوہدری محمد جعفراقبال کو رحیم یارخان کا ‘‘فرزند اقبال’’ لکھا ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ فرزند اقبال جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی طرح نہ صرف اقبال ان کے نام کا لازمی حصہ ہے بلکہ ان کے والد محترم کا نام بھی اقبال ہی ہے، یعنی چوہدری محمد اقبال گجر آف چیلیانوالہ ، اس حوالے سے چوہدری محمد جعفراقبال کو ہم منڈی بہاوالدین کا ‘‘فرزند اقبال’’ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں اس فیملی کا آبائی حلقہ انتخاب ہے ۔۔۔۔۔ فرزند اقبال کا حوالہ آئے اور شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ عیلہ کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے ؟ کالم کا آغاز آموں کے ذکر سے شروع ہوا تھا ، اس لیئے اختتام بھی پھلوں کے اس بادشاہ پر ہی کرتے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ ایک بار جب حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ بیمار ہوئے تو اطباء نے آپ کو میٹھا چھوڑ دینے کو کہا ، یہاں تک کہ آموں کا بھی پرہیز لکھ دیا جو آپ کا پسندیدہ ترین پھل تھا ، جب آم کھانے سے بھی منع کردیا گیا تو آپ بہت مضطرب ہوئے اور فرمایا کہ
‘‘ آم نہ کھا کر مرنے سے ، آم کھا کر مر جانا بہتر ہے!’’
جب آپ کا اصرار حد سے زیادہ بڑھ گیا تو حکیم نابینا نے آپ کو روزانہ ایک آم کھانے کی اجازت دے دی ۔ اس اجازت کا حضرت علامہ نے یوں خوب فائدہ اُٹھایا کہ آپ علی بخش کو تاکید فرماتے تھے کہ
‘‘بازار میں جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہی خرید کر لانا !’’

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button