عمران خان کو سلام

عمران خان کو سلام

تحریر:سمیرا ملک

تحریر:سمیرا ملک

لیڈر ملک کے لئے لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ترجیحات کے مطابق نئی سمت کا تعین کرتے ہیں نہ کہ کمشن کے چکر میں مہنگے منصوبوں سے معاشی دیوالیہ نکال کر ملک کا بیڑا غرق کردیتے ہیں۔

جیسے ماضی میں مسلم لیگ ن نے بجلی کی کمی پورا کرنے کے لیے مہنگے منصوبوں کی روش اپنائی۔ان مہنگے منصوبوں کے باوجود کوئی بتاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں کتنے ڈیمز بنائے؟.یاآبی ذخائر کی تعمیر بارے سوچا۔
کہتے ہیں کہ پاکستان میں کسی کام کے شروع ہونے کی مثال اس مریض کی طرح ہے۔جو وینٹیلیٹر پر آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے۔اس سے پہلے علاج نہیں کروایا جاتا۔

یہاں میں یہ بات اس لیے وثوق سے کہہ رہی ہوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق2025ءمیں پانی کی شدیدقلت کے باعث پاکستان خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔جبکہ خشک سالی کا آغاز بلوچستان سے ہوگا۔جہاں لوگوں کو پینے کا پانی دستیاب نہیں ہو گا۔

پاکستان آبی قلت کا شکار ممالک میں تیسرے نمبر پر آچکا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان خدانخواستہ ایتھوپیا سے زیادہ خشک سالی اور بدحالی کا شکار ہو سکتا ہے۔

یاد رہے پاکستان 1947ءمیں آبی وسائل سے مالا مال تھا تب پانی کی دستیابی 5ہزار کیوبک میٹر تھی جو اب خطرناک حد تک کم ہو کر ایک ہزار کیوسک میٹر رہ گیا ہے۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جس میں سے ایک وجہ جوسنگین ہے وہ یہ ہے کہ بھارتی فنڈز پر پلنے والے سیاستدانوں نے کالاباغ ڈیم کو متنازع بنا کراس کی تعمیر ہی رکوا دی۔

دوسری وجہ ہمارے نہری نظام کی خرابی ہے۔اس میں محکمہ انہار کی غفلت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔کیونکہ پاکستان میں 93 فیصد دریائی پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

مگر ناقص اریگیشن سسٹم کی وجہ سے اس کا دو تہائی حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیراب کرنے کے طریقے پرانے ہیں۔

جدید اریگیشن ٹیکنالوجی عام کاشتکار کی پہنچ سے اب تک دور ہے۔کھالے کچے ہونے کی وجہ سے پانی بہت سارا ضائع ہو جاتا ہے یا پھر چوری ہو جاتا ہے۔

اگرچہ پچھلے کچھ عرصے سے کھالے پکے کرنے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور کاشتکار کو ٹرینڈ کرنا ہو گا۔کم پانی استعمال کرنے والی فصلوں کی طرف توجہ دینا ہوگی۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے دریائی پانی کا رخ موڑنے کے لیے شاطرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔جس کے تحت بھارت میں غیر قانونی ڈیمز کی تعمیر مکمل کی گئی ہے۔

اب وہ مجرمانہ من مانی کرتا ہے۔جب دل چاہا پانی چھوڑ دیا،پاکستان کو بتایا بھی نہیں جاتا تھا کہ پانی چھوڑ رہے ہیں۔

جس سے ہمارے ملک میں سیلاب آ جاتا تھا۔ کھڑی فصلیں اور لوگوں کے گھر تباہ ہو جاتے تھے۔اس دوران شوباز شہباز شریف لمبے بوٹ پہن کر اپنی سیاست چمکانے سیلاب زدگان کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے۔

مگروہ ڈیم بنانے کا خیال کبھی اپنے دل میں نہیں لائے۔شوباز کی غفلت کے سبب آج پنجاب کو 26 فیصداورسندھ کو 15 فیصد پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

جبکہ اس وقت ملک میں پانی کا سنگین بحران ہے۔ تشویش کاامریہ ہے کہ پنجاب کو کپاس،چاول،گنے سمت خریف کی دیگر فصلوں کے لیے بوائی کا پانی کم دیا جا رہا ہے۔

موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے ثابت کردیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے لانگ ٹرم منصوبہ بندی کا ٹھیکہ اٹھا لیا ہے۔

کیونکہ عمران خان آنے والے الیکشن اور ووٹ کے بارے میں نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

1967ءمیں منگلا ڈیم کی تعمیر کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنا۔53 سال بعد ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 10 ڈیموں کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔

جن پر 3 ہزار ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں۔یاد رہے کہ 2018ءمیں چیف جسٹس ڈیم فنڈ تشکیل دیاگیا تھا۔ جس میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 12ارب اکھٹے ہوئے۔

وہ بارہ ارب روپے بھی ڈیموں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ عمران خان نے ڈیڑھ سال پہلے مئی 2019ءمیں فاٹا کے علاقے ضلع مہمند میں مہمند ڈیم کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا۔

جس کا پچھلے دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے وزٹ کیا اور دیکھا کہ اس کا 35 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے وہاں پر تین شفٹوں میں کام ہو رہا ہے۔

واپڈا کے مطابق یہ ڈیم 2025ءمیں مکمل ہو جائے گا جس سے 800 میگاواٹ سستی بجلی پیدا کی جائے گی۔

جس سے ایک لاکھ ایکڑ بنجر زمین کوکاشت کیا جائے گااور اس ڈیم میں ایک کڑور انتیس لاکھ ایکڑ پانی ذخیرہ کیا جائے گا اس سے پہلے یہ پانی سمندر میں جاتا تھا اور نوشہرہ اور چار سدہ ڈوب جاتا تھا۔

اب قوم عمران خان کی احسان مند ہے کہ اس نے قوم کا سوچا ہی نہیں بلکہ کرکے دکھادیا۔اس سلسلے میں انہوں نے قوم کو 2023ءتک ملک میں 10 ڈیموں کی تعمیر مکمل ہونے کی نوید بھی سنادی ہے۔
اسکے علاہ پنجاب میں متعدد کینال کے پراجیکٹ پر کام شروع ہے۔ جس کا سہرا سردار عثمان بزدار کو جاتا ہے۔ جیسے جلال پور کینال میگا پروجیکٹ پر 32 ارب سترہ کروڑ کی لاگت سے 117 کلومیٹر طویل کینال کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جو ایک نہر نہیں بلکہ ایک مکمل نہری نظام ہے۔ جس سے 80 دیہات میں زرعی انقلاب آئے گا اور ایک لاکھ سترہ ہزار ایکڑ سے زائد زمین سیراب ہوگی۔جس سے تقریباً چار لاکھ افراد کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔
شکریہ عمران خان اور عثمان بزدار۔
٭٭٭٭٭

Rahim yar khan

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button