اندھر گینگ کا ریاست کی رٹ کو چیلنج

رحیم یار خان: اندرون سندھ کے کچے کے علاقے میں سرگرم اندھر ڈکیت گینگ کے سرغنہ جان محمد عرف جانو اندھر نے سوشل میڈیا پر اپنے تازہ پیغام میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔

کلاشنکوف بندوق چلاتے ہوئے اپنی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے، جانو نے مقامی سیاسی شخصیات سے مقابلہ کرنے کی دھمکی دی جو پنجاب حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ ان کے ساتھ ثالثی کرنے کے بجائے علاقے میں ایک اور آپریشن شروع کریں۔

رحیم یارخان  اور راجن پور (دریا کے دوسری طرف) سے تاوان کے لیے لوگوں کو اغوا کرنے کے لیے بدنام گروہ، خیال کیا جاتا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اس گروہ نے تحصیل صادق آباد سے چھ افراد کو اٹھا لیا۔

پی پی پی کے ایم پی اے نواز آباد ممتاز علی چانگ جنہوں نے اتوار کو وزیر اعظم کے ساتھ لاہور میں امن و امان سے متعلق اجلاس میں شرکت کی، کہا کہ جانو نے اجلاس کے بعد دھمکیاں دیں۔

انہوں نے کہا کہ جانو نے  مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے شیخ فیاض، پیپلز پارٹی کے ایم پی اے مخدوم عثمان، ریاض محمود مزاری اور پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو چیلنج کیا تھا۔

چانگ نے کہا کہ اسے طویل عرصے سے گینگ کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا تھا کیونکہ وہ گزشتہ اکتوبر میں گینگ کے ہاتھوں مارے گئے نو افراد کے خاندانوں کی مدد کر رہا تھا۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے ضلعی صدر رئیس محبوب پر اندھر گینگ کی پشت پناہی کا الزام لگایا لیکن بعد میں اس الزام کو مسترد کر دیا۔

کچے کا علاقہ پولیس کی دسترس سے باہر کیوں ہے؟

دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب اس کی وسعت اسے ایک بڑے دریا سے کئی ندی نالوں میں تبدیل کر دیتی ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہوتے ہیں جن تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں مشکل ہوتی ہے۔

اسی مشکل کو ڈاکو اپنی آسانی میں بدل کر یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے ہیں اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔

یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور نوآبادیاتی دور سے ڈاکوؤں اور آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کے لیے چھپنے کا ٹھکانہ رہا ہے۔ یہ علاقہ مختلف عملداریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔

جس کچے علاقے کی ہم بات کر رہے ہیں وہ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان کا علاقہ ہے۔

یہاں کے رہائشی زمیندار میرل خان بتاتے ہیں کہ کہنے کو تو یہ بمشکل بیس سے تیس کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال موجود رہتا ہے لیکن ندی نالوں کے درمیان جزیروں پر ڈاکووں کی پناہ گاہوں تک پلوں کی عدم موجودگی میں پہنچنا مشکل کام ہے۔

میرل خان کے مطابق اس علاقے کی ساخت ایسی ہے کہ کہیں جنگل ہے، کہیں پانی ہے اور کہیں خشکی۔ اسی لیے پولیس کے لیے یہاں کے ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا خطروں سے پُر ہوتا ہے اور عام طور پر پولیس کے لیے یہ ‘نو گو ایریا’ سمجھا جاتا ہے۔

جب اس بارے میں ڈی پی او راجن پور محمد افضل سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پولیس کا کام عوام کی حفاظت ہے اور ڈاکو چاہے پہاڑوں پر ہوں یا کچے میں ان کو ضرور گرفت میں لایا جائے گا تاہم انھوں نے کہا راجن پور پولیس کا مسئلہ کچے کے علاقے تک رسائی کا ہے۔

ڈی پی او نے بتایا کہ اس علاقے تک رسائی کے لیے پولیس نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اس علاقے میں تین پُل بنائے جائیں۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button