رحیم یارخان :ایس ایچ او محمود الحسن نے قاتلوں کو پیسے کی چمک پر چھوڑ دیا

رحیم یارخان:صلاح الدین قتل کیس”اک گل پوچھاں مارو گے تا نیں“کے مرکزی ملزم ایس ایچ او محمود الحسن نے ”وزیر اعظم“خان کے بیٹے کے قاتلوں کو پیسے کی چمک پر چھوڑ دیا،سوال پوچھنے پر ایس ایچ او آپے سے باہر والد اور ماموں کو دھکے دیکر تھانے سے نکال دیا،

متاثرہ والد اور ماموں کی پشتون عوامی ملی پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری کے ہمراہ ڈسٹرکٹ پریس کلب میں پریس کانفرنس،والد پریس کانفرنس میں ایس ایچ او ظلم و ستم کے بارے میں بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگیا،

ہم ڈی پی او رحیم یارخان اور ڈی ایس پی سٹی کو 3دن کا ٹائم دیتے ہیں اگر ہمارے معصوم بچے کے قاتلوں کو گرفتار نہ کیا گیا تو پنجاب کے 17اضلاع اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے آفس کے سامنے دھرنے اور احتجاج ہونگے،
ضلعی جنرل سیکرٹری پشتون عوامی ملی پارٹی کی پریس کانفرنس میں دھمکی۔تفصیل کے مطابق ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان میں مقتول فیاض احمد خان کے والد وزیر اعظم خان،ماموں سیف اللہ خان،فنانس سیکرٹری پشتون عوامی ملی پارٹی صحت اللہ خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پشتون عوامی ملی پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری مومن زار سلیمان خیل نے کہا کہ مورخہ 23-08-2021کی شام کو 6بجے وزیر اعظم خان نے اپنے بیٹے فیاض احمد خان کو گھر کے سودا سلف کی خریداری کیلئے بھیجا کو سامان خریدنے کے بعد اڈا گلمرگ کے قریب سڑک پر رش ہونے کی وجہ سے کھڑا تھا کہ مخالف سمت سے آنے والے اوور لوڈر رکشہ نے اسے ٹکر ماری

جس کے نتیجے میں وہ سڑک کے درمیان میں گر گیا اور تیز رفتار ٹریکٹر ٹرالی ڈرائیور جو موبائل پر کال کرنے میں مصروف تھا نے اسے کچل دیا جو شدید زخمی ہوگیا،اطلاع پا کر زخمی فیاض احمد خان کا ماموں موقع پر پہنچا اور زخمی کو طبی امداد کیلئے اپنی کار میں ڈال کر شیخ زاید ہسپتال لے آیا

جہاں پر اسے طبی امداد دی جارہی تھی کہ اسی دوران تھانہ بی ڈویژن میں تعینات اے ایس آئی فیاض احمد اپنے دو کانسٹیبلوں کے ہمراہ ہسپتال پہنچا اور سیف اللہ خان کو ہسپتال کے باہر لا کر پریشرائز کرنے لگا کہ کاروائی کرنی ہے تو بتاؤ اور پیسوں کا بندو بست کرو تمہارے پیسے لگنے ہیں جس پر سیف اللہ خان نے کہا کہ لڑکے والدین اور رشتہ داروں کو اطلاع کردی ہے لڑکے کاوالد وزیر اعظم خان آکر کاروائی کریگا،

اسی دوران زخمی فیاض احمد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں چل بسا،جائے حادثہ پر موجود شہریوں نے حادثے کا سبب بننے والے لوڈر رکشہ اور ٹریکٹر ٹرالی ڈرائیور کوپکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا

جبکہ لوڈر رکشہ کا ڈرائیور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا،دوسرے روز مقتول کی تدفین کے بعد جب پولیس سے رابطہ کیا تو پہلے ایے ایس آئی فیاض احمد نے فون کال پر انہیں بے عزت اور ذلیل کیا

جب تھانے گئے تو ایس ایچ او محمود الحسن سے ملزمان کے بارے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے خود ملزمان کیساتھ صلح کرلی ہے تو ہم نے انہیں چھوڑ دیا،

جبکہ مقتول کے والد نے انہیں حقیقت بتائی انہوں نے اے ایس آئی کو کمرے میں طلب کرکے بات سنی اور کہا کہ ان دونوں کو کمرے سے باہر نکال دو یہ ہم سے مرے ہوئے مردے نکلوانے چاہتے ہیں،

مقتول کے والد نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایچ او محمود الحسن اور اے ایس آئی فیاض احمد نے انکے بچے کے قاتل کو بھاری رشوت کے عوض چھوڑ دیا ہے،

پریس کانفرنس کرتے ہوئے پشتون عوامی ملی پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری مومن زار سلیمان خان نے بتایا کہ ضلع رحیم یارخان میں پنجاب پولیس کا پشتون قوم کے ساتھ تیسرے درجے کا سلوک ہے،

2011سے لے کر اب تک پنجاب پولیس پشتونوں کیساتھ ظلم و زیادتی کر رہی ہے،کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں سردی بڑھنے پر پشتون پنجاب کے مختلف اضلاع کا رخ کرتے ہیں اور کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں اور سردی میں کہوہ بیچ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں مگر رحیم یارخان کی پولیس انہیں تنگ کرنے سے باز نہیں آتی،

کبھی دہشت گرد،کبھی طالبان تو کبھی افغانیوں کہہ کر انہیں حوالات میں بند کرتی ہے اور پھر 15،15ہزار روپے وصول کرنے کے بعد انہیں رہا کرتی ہے،

ایک اور حادثے کا ذکر کرتے ہوئے مومن زار سلیمان خیلنے کہا کہ اڈا گلمرگ کے قریب ایک اور حادثہ ہوا جس میں ایک مقامی شخص ٹرک ڈرائیور نے کچل دیا

پولیس نے فوری کاروائی کرتے ہوئے ٹرک ڈرائیور کو گرفتار کرکے ٹرک تحویل میں لے کر تھانہ میں بند کر دیا اور پانچ روز بعد”دییت“کی ادائیگی کے بعد ہونے والی صلح کے بعد ٹرک ڈرائیور اور ٹرک کو مالکان کے حوالے کیا،پولیس نے صرف پشتون کا بیٹا ہونے پر ایک معصوم کے قاتل ٹریکٹر ٹرالی ڈرائیور کو بھاری رشوت کے عوض چھوڑ دیا،

انہوں نے ڈی پی او رحیم یارخان اسد سرفراز خان،ڈی ایس پی سٹی سرکل اسلم خان کو 3دن کا ٹائم دیتے ہوئے کہا کہ اگر تین دن میں ہمارے بچے کے قاتلوں کو گرفتار نہ کیا گیا

رحیم یارخان کے سٹی پل پر اور پنجاب کے 17اضلاع سمیت وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دئیے جائینگے جس کی ذمہ دار پنجاب پولیس ہوگی،

واضع رہے کہ ایس ایچ او محمود الحسن پنجاب کی تاریض کے مشہور قتل کیس صلاح الدین”اک گل پوچھاں مارو گے تا نہیں“کے مرکزی ملزم بھی رہ چکے ہیں جو اس وقت تھانہ اے ڈویژن میں تعینات تھے جس کے حوالات میں صلاح الدین کی تشدد سے موت واقع ہوئی تھی جس میں وہ کافی عرصہ تک معطل رہنے کے بعد بحال ہوئے اور اب تھانہ بی ڈویژن میں تعینات ہیں۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button