پولیس کی قبضہ گروپ سے مبینہ سنگین ملی بھگت بے نقاب ہو گئی

رحیم یار خان : سپریم کورٹ اور اے ڈی سی آر کے سامنے اپیلیں زیر سماعت ہونے کے باوجود تحصیلدار اور پولیس کی قبضہ گروپ سے مبینہ سنگین ملی بھگت بے نقاب ہو گئی ،

ایک طرف اے ڈی سی آر عبدالطیف کی ’’عدالت‘‘ میں41 ایکڑ کی بجائے 51 ایکڑ کا ونڈہ بنا کر مبینہ قبضہ گروپ کو سرکاری ریکارڈ میں نوازنے اور ناجائز فیور دینے کے تحصیلدار رحیم یاخان کے انتہائی متنازع فیصلے کیخلاف اپیل زیر سماعت ہے ،

تو دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نےاسی کیس میں دیئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دیدیا ہے ،

موضع فتح پور ٹوانہ حدود ایریا تھانہ آباد پور میں جائیداد کے تنازع پر خونی جھگڑا کروانے کی افسوسناک کوشش نائب تحصیلدار اجمل گورایہ ، گرداور اسلم ، پٹواری امجد اور ایس ایچ او تھانہ آباد پور سلیم درگھ کی مبینہ ملی بھگت اور پانچ لاکھ روپے کی مبینہ ’’چمک‘‘ کا شاخسانہ بتائی جا رہی ہے ،

دوسری طرف محکمہ مال اور پولیس کے مذکورہ افسران کا موقف ہے کہ وہ قانون کے مطابقسپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند ہیں اور اپنے فرائض میرٹ پر انجام دے رہے ہیں ،

پانچ لاکھ روپے رشوت لے کر اللّٰہ وسایا ، اقبال کورائی اور اللّٰہ جوایا بوہڑ کو ناجائز فیور دینے کا الزام من گھڑت ہے ، اقبال کورائی اور اللّٰہ جوایا بوہڑ نے کسی بھی قسم کی قبضہ گروپ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف ایف آئی آرز مقامی سیاسی مخالفین کے ایما پر درج کرائی گئیں جو دیہی ایریاز کا روایتی کلچر بن چکا ہے ،

دریں اثنا وارثان عظیم خان بنام لال بخش و دیگر ’’سول ریویو پٹیشن‘‘ کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کا فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے 19 اکتوبر 2022 کو دیا ، جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ اے ملک شامل تھیں ،

اس کیس میں مدعا علیہ کی طرف سے سینئر قانون دان ممتاز مصطفٰی ایڈووکیٹ اور اسلم زار ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ نے فریق مخالف کی پیروی کی ،

اس حوالے سے تحریری آرڈر 31 اکتوبر 2022 کو جاری کیا گیا اور 03 نومبر کو اس کی کاپیاں تمام فریقین کو بھجوا دی گئیں ، سپریم کورٹ اور اے ڈی سی آر کے پاس معاملہ زیر سماعت ہونےکے باوجود محکمہ مال اور مقامی پولیس نے بدنام قبضہ گروپوں اقبال خان کورائی اور اللہ جوایا بوہڑ سے ساز باز کر کے زمین اور کھڑی فصل پر ناجائز قبضہ کروانے کی 2 ناکام کوششیں کیں جس کے دوران خون خرابے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ،

دریائے سندھ کے کچہ ایریاز کچہ گوپانگ ، چک ویہہ اور فتح پور ٹوانہ میں ایک فریق سے متنازع زمینیں اونے پونے خرید کرقبضے کرنے میں بدنام یہ یہ دونوں رسہ گیر گروپ چوری چکاری منشیات فروشی ، ناجائز اسلحہ، لڑائی جھگڑوں ، خواتین سے متعلق جرائم ، حتیٰ کہ خواتین پر حملوں ،دست درازی اور مبینہ اغواکی کئی وارداتوں میں بھی ملوث بتائے جاتے ہیں اور ان کےخلاف مختلف تھانوں میں ایسے سنگین جرائم کی کئی ایف آئی ٓآرز بھی درج ہیں ،

محکمہ مال اور مقامی پولیس کا ایسے بدنام قبضہ گروپوں اور رسہ گیروں کا ’’سہولت کار ‘‘ بن کر خون خرابہ کروانے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے

جس کا ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان سلمان خان اور ڈی پی او رحیم یارخان اختر فاروق کو نوٹس لینا چایئے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ متاثرہ فریق وارثان عظیم خان نے اس حوالے سے اے سی رحیم یارخان اور ڈی ایس پی صدر سرکل رحیم یارخان سے بھی رجوع کیا ہے ۔

یاد رہے کہ موقع پر 41 ایکڑ زمین موجود ہونے کے باوجود محکمہ مال نے 51 ایکڑ کا ونڈہ بنا کر قبضہ گروپ کو دیدہ دلیری سے نوازا ، اس پر احتجاج کیلئے پنجاب حکومت اور ضلعی انتظامیہ کیخلاف احتجاج کیلئے انوکھا انداز اختیار کیا گیا ،

مظاہرین نے بھینس پر پنجاب حکومت لکھ کر اُس کے سامنے بین بجائی اور اس محاورے کو عملی صورت میں ڈراماٹائز کر کے دلچسپ انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ،

اس احتجاج کو سوشل ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر خوب پذیرائی ملنے کی وجہ سے اس بات کا امکان بھی پیدا ہوگیا ہے کہ بھینس کے آگے بین اب ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے کچہری چوک پر بھی بجائی جائے اور وہاں احتجاجی دھرنا دیا جائے ،

ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کے مختلف محکموں کی طرف سے کی گئی زیادتیوں اور ناانصافیوں کیخلاف عوامی احتجاج کا دائرہ پھیل گیا ہے ،

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈی سی آفس کے سامنے مجوزہ احتجاج کے دوران پنجاب پولیس ، محکمہ مال ، رجسٹری برانچ ، محکمہ تعلیم ، محکمہ صحت اور خاص طور پر شیخ زاید ہسپتال آئوٹ ڈور کے متاثرین کی بڑی تعداد بھی شریک ہو گی ،

دوسری طرف جمعیت علمائےاسلام (ف) کے رہنما مولانا محمد اسماعیل فاروقی اور جے یوپی نیازی کے رہنما ملک محمد قاسم کھوکھر نے ڈی سی آفس احتجاجی دھرنے کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ،

اور کہا ہے کہ محکمہ مال اور پولیس کے سامنے اپنا جائز موقف پیش کرنا اب بھینس آ گے بین بجانے کے مترادف ہوگیا ہے ، عوام کب تک بھینس کے سامنے بین بجاتے رہیں ، اس لیئے اب بیورو کریسی اور سرخ فیتے سے نجات کیلئے عوام کو سڑکوں پر لانے کا وقت آ گیا ہے،

دوسری طرف ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن کے مختلف ونگز کے عہدیدار ، وکلا رہنما اور مختلف کسان تنظیموں کے ساتھ بھی اس عوامی احتجاج میں شرکت کیلئے رابطے کیئے جا رہے ہیں ،

ذرائع کا کہنا ہے کہ احتجاجی دھرنے کے اگلے مرحلے کے دوران کمشنر آفس کے سامنے بہاولپور میں اور وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر کے سامنے 8 کلب روڈ پراحتجاج کیا جائیگا ۔ احتجاجی روڈ میپ کا باضابطہ اعلان کل متوقع ہے۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button