"درس گاہوں کو رقص گاہیں بنا دیا ہے”

تحریر : سید ساجد شاہ

تحریر : سید ساجد شاہ

وطن عزیز میں گزشتہ چند سالوں سے تعلیمی اداروں میں "تعلیم کے نام پر آزادی”  کو جو فروغ دیا جارہا ہے اس نے ہر زی روح کو سنگین اور تشویشناک مسائل سے دوچار کر دیا ہے  ان میں سب سے اہم اور بڑا مسئلہ زیر تعلیم  بچیوں کے  لڑکوں کے ساتھ دوستیوں ، معاشقوں ، ناجائز تعلقات، شادیوں اور ان کے ساتھ فرارہونے کے مسائل ہیں،

گذشتہ ایک مختصر عرصے کے دوران ملک کے مختلف گوشوں سے سینکڑوں بچیوں کے دین و مذہب کو خیر باد کہہ کر گھروں سے بھاگ جانے کی روح فرسا خبریں مسلسل غیرت و حمیت اسلامی کا منھ چڑارہی ہیں اور ہم ہیں کہ اس تشویشناک صورتحال پرسوائے کف افسوس ملنے کے کچھ بھی نہیں کرپارہے ہیں ،

بہت ہوگیا تو رائے زنی اور تبصروں کا ایمانی فریضہ ادا کرکے اس فتنہ کی سرکوبی کا ”مجاہدانہ کام” انجام دے رہے ہیں، جب کہ صورت حال کی سنگینی کا تقاضہ ہے کہ ہم اس کے اسباب و محرّکات کو تلاش کرکے ان کا سدِّباب کرنے کی کوشش کریں۔

اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں جن پر مستقل و مفصل خامہ فرسائی کی جاسکتی ہے، سردست اس فتنہ کے ایک بنیادی اور اہم ترین سبب کو ذکر کرنا ہے جس کومغرب نے اور سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجیت کو پوری دنیا پر تھوپنے والوں نے مستقل و منظم منصوبہ بندی کے ذریعے پوری دنیا میں رائج و نافذ کیا ہے،

اور وہ ہے ہماری تعلیم گاہوں اسکولوں اور کالجوں میں رائج مخلوط نظام تعلیم جو ایک ایسا سمِّ قاتل ہے جس نے اوطن عزیز  کی نوجوان نسل کے اندر سے غیرت ایمانی اور حیا و شرافت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے دراصل مغرب نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو دنیا سے دیس نکالا دینے کے لئے مسلمانوں کو زیر کرنے یا انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے بجائے تعلیم کے نام پر ان کی عقلوں اور مزاجوں کو مسخر کرنے کا کام کیا،

جس کے ذریعے وہ ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے اگرچہ مسلمان ہوں مگر افکار و نظریات اور مزاج ومذاق کے اعتبار سے پوری طرح مغرب کی فکر و نظر سے ہم آہنگ ہو۔

”یہ مغربی نظام تعلیم درحقیقت مشرق اور اسلامی ممالک میں ایک گہرے  لیکن خاموش قسم کی نسل کشی کے مترادف  ہے عقلاء مغرب نے ایک پوری نسل کو جسمانی طور پر ہلاک کرنے کے فرسودہ اور بدنام طریقے کو چھوڑ کر اس کو اپنے سانچے میں ڈھال لینے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لئے جابجا مراکز قائم کئے جن کو تعلیم گاہوں، یونیورسٹیوں  اور کالجوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہےگزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا ہے "

لاہور یونیورسٹی کی مغربی لباس میں زیب تن ایک طالبہ ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ تھامے گھٹنوں کے بل ایک طالب علم لڑکے کے سامنے بیٹھ کر اُسے وہ گلدستہ پیش کرتی ہے جس کا مقصد اُس بچی کی طرف سے لڑکے کو Propose کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لڑکا لڑکی کو کھڑا کرتا ہے اور دونوں گلے لگ جاتے ہیں اور یہ سین یونیورسٹی میں موجود درجنوں دوسرے طلباء و طالبات کے درمیان فلموں کی طرز میں موبائل کیمروں میں فلمایا بھی گیا۔

اچھا ہوا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایکشن لیتے ہوئے دونوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔ یہ واقعہ ہماری حکومت، ہمارے معاشرے، ماں باپ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی بند آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے انگریز سامراج اور اس کے پیروکاروں نے دینی قوتوں کو  ہمیشہ  آپس میں لڑانے کی جسارت کی ہے،   ان میں فرقہ ورایت کو فروغ دیا،

ان میں سے بعض کو خریدلیا اور جو نہ بکے انہیں مقامی حکمرانوں کی مدد سے ناکام بنایا۔ اس طرح سے انہوں نے نوزائیدہ مسلم ممالک کو اسلام کی راہ پر چلنے نہ دیا اور نہ مسلم معاشرے کی اسلامائیزیشن کی کسی کوشش کو موثر اور کامیاب ہونے دیا۔

تعلیم کے شعبے میں انہوں نے گماشتہ حکمرانوں کے ذریعے پاکستان کے مسلم معاشرے کو دین سے دور کرنے ، اسے صحیح اور متوازن اسلامی نظام تعلیم کے مثبت اثرات سے محروم کرنے اور اسے ملحدانہ مغربی فکروتہذیب کے شکنجے میں جکڑنے اور اپنے اسلام ومسلمان دشمن ایجنڈے کے لیے اسے استعمال کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ان کی تفصیل لکھنے کے لیے کافی وقت درکار ہے  انگریز سامراج نے پاکستان میں تعلیم کی اسلامائیزیشن کے عمل کو موثر نہیں ہونے دیا۔

علماء، دینی جماعتوں اور عوام کے اصرار پر اگر حکمرانوں کو اس غرض سے کچھ اقدامات کرنے بھی  پڑے تو وہ صرف دفتری فائلوں کی حد تک ریکارڈ استعمال کیا گیا،

یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ انگریز جب ہندوستان پر غاصبانہ قابض ہوئے تو ان کا یہی خیال تھا کہ یہ مسلم قوم اپنی تعلیم حاصل کرکے ہمارے اقتدار کے لئے خطرہ بن جائے گی ،

چناچہ ان انگریزوں اور استعماری قوتوں نے اس ملک میں ایک ایسا نظام تعلیم نافذ کیاجس کے ذریعے انہوں نے ہماری نسلوں کی فکری وروحانی موت کا ایسا منظم منصوبہ تیار کیا جس کی تمام تر بنیاد خودغرضی و قوم پرستی پر رکھی گئی۔

اسلام کی نظر میں علم کا سب سے بڑا مقصدیہ ہے کہ انسان کو اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک کی معرفت حاصل ہو، اس کو شعور وآگہی حاصل ہو،اس کے اندر تحقیق و جستجو کی صلاحیت پیدا ہو، وہ تہذیبی اقدار سے آراستہ ہو ، انسان صحیح معنی میں انسان بن جائے،

اس کے اندر خوداحتسابی ، ایثار و ہمدردی ، اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا احساس پیداہو۔ جبکہ مغربی تعلیم کی بنیاد انکارِ الوہیت اور خودغرضی و قوم پرستی پر مبنی ہے،

اس میں اپنی ذات کے لئے خود احتسابی یا دوسروں کے لئے ایثار و ہمدردی کا کوئی تصور ہی نہیںہے ، تہذیبی اقدار،شرافتِ نفس اور حیا و پاکدامنی کے لئے اس نظام میں کوئی جگہ نہیںہے۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

مغربی نظام تعلیم اور خصوصاً مخلوط نظام تعلیم چونکہ دین فطرت اسلام کے دیئے گئے اصول و قوانین تعلیم کو نظر انداز کرکے بلکہ اس کو ختم کرنے کے مقصد سے ترتیب دیا گیا ہے،

لہٰذا جہاں کہیں بھی یہ نظام تعلیم نافذ کیا گیا وہاں اس کے سنگین و مہلک اثرات و نتائج مذہب بیزاری ، تہذیب و اقدار سے دست برداری اور شہوت رانی و جنسی انارکی ہی کی شکل میں نمودار ہوئے ہیں،

اور یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں مخلوط نظام تعلیم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ دین اسلام تعلیم نسواں کا مخالف ہے، بلکہ وہ اجنبی مرد اور اجنبی عورتوں کو مخلوط معاشرت سے منع کرتا ہے ،

وہ مخلوط معاشرے کو نہ عبادات میں پسند کرتا ہے اور نہ ہی معاملات میں،اسلام تعلیم نسواں کو کتنی اہمیت دیتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود رسالت مآب ﷺ نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک مخصوص دن مقرر فرمایاتھا جس میں آپ ان کو وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے،

اور اگر کسی عذر کی وجہ سے آپ تشریف نہ لے جا سکتے تو آپ صحابۂ کرام میں سے کسی کو ان کی تعلیم کے لئے روانہ فرمادیا کرتے تھے۔ اسلام عورت کو اجنبی مردوں کے ساتھ عدم اختلاط اور پردے کے پورے اہتمام کے ساتھ تعلیم کی اجازت دیتا ہے ،

لیکن وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ صنف نازک کی نسوانیت کے تقدس کی حفاظت کو اسکی تعلیم سے کئی گنا زیادہ اہمیت دیتا ہے، وہ عورتوں کو حصول تعلیم سے منع نہیں کرتا ہے بلکہ حصول تعلیم کے ان طریقوں سے منع کرتا ہے جن کے ذریعے اس کی نسوانیت کا تقدس پامال ہوتا ہو یا اس کی عصمت کے داغدار ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوتا ہو،

اوریہ بات بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے ملک میں رائج موجودہ مخلوط نظام تعلیم ایک ایسا نظام ہے جو طلباء و طالبات کو ہمہ وقت گمراہی و آوارگی پر ابھارتا رہتا ہے،

جس کی تباہ کاریوں اور مضر اثرات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سرفہرست یہ بات ہے کہ وہ ہماری نوخیز نسل اور مستقبل کے معماروں سے سب سے پہلے حیا کی آخری رمق بھی چھین لیتا ہے۔
مخلوط نظام تعلیم کی تباہ کاریوں اور اس کے مضرات کو جاننے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ مخلوط نظام تعلیم کیا ہے ،

اس کا آغاز کب اور کیوں ہوا؟ َ مخلوط نظام تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی مضمون کی تعلیم ایک ہی جگہ ، ایک ہی وقت اور ایک ہی طریقے سے لڑکا اور لڑکی دونوں کو بلا تفریق جنس ایک ساتھ دی جائے،

نہ کوئی علیٰحدہ نشست کا نظم ہو نہ علیٰحدہ کلاس کا ۔ مذہب اسلام میں اس طریقۂ تعلیم کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ، یہ لعنت ہمارے پاس مغرب کی اندھی تقلید کے طفیل آئی ہے

آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ وہاں ہم نصابی لیکن درحقیقت غیر تعمیری سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔

خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں ہم و غیر نصابی پروگراموں اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جاتی ہیں۔ سالانہ تقریبات، مقابلہ حسن، فیشن شوز، ملبوسات کی نمائش، کیٹ واک اور کبھی ڈانس مقابلوں کے عنوان سے پروگرامز کے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی، ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔

ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں روشن خیالی کے نام پر جو وباء پھیل رہی ہے وہ ہمارے معاشرے اور تمد ن کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔

اور نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ٹاپ سٹارز ابھر رہے ہیں۔ آج تعلیمی اداروں کی حالت زار یہ ہے کہ جن درس گاہوں کو محب وطن ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان تیار کرنے چاہیئں تھے،

وہ لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ہیروز پیدا کررہی ہیں۔ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت درس گاہوں کو رقص گاہوں میں تبدیل کرنے کے لئے ناچ گانے کی ثقافت کو ملک کے ایک ایک کالج اور ایک ایک سکول پر مسلط کیا جارہا ہے۔ آج بدقسمتی سے ہمیں جو تعلیم دی جارہی ہے اور جو تربیت ہورہی ہے،

وہ آج بھی ہمارے مقصد حیات سے متصادم ہے۔ آج ہمارا نظام تعلیم کانٹے بورہا ہے، تعلیم منفی ہو تو دامن خالی ہی رہتے ہیںجس تعلیم کی کوئی سمت نہ ہو اور جو تعلیم کوئی مقصد ہی نہ رکھتی ہو وہ فرد کو کیا سنوارے گی اور معاشرے کو کیا دے گی؟بحیثیت قوم ہم وہ نہیں رہے جو ہمیں ہونا چاہئے تھا۔

ہم اپنی نفی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں، ہماری نمائندگی مسخ ہو چکی ہے جبکہ ہماری ترجمانی اجنبی زبانیں کررہی ہیں۔آج ہماری تصویر ہماری تاریخ کا منہ چڑا رہی ہے اور ہم تماشائی بن کر اپنی اقدار کا قتل اور اپنی تہذیب کی تذلیل دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو اپنی ہی صدیوں سے محروم کررہے ہیں۔

آج ہمارے ہاں سب سے بڑا ظلم تعلیم کے نام پر ہورہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا کردار ماضی جیسا نہیں رہا۔ ہماری توقیر، تکریم اور تحفظ ہمارے تشخص میں ہے لیکن ہم اپنے ہی گھر میں اجنبی بننے والے خود کو بھی کھورہے ہیں اور اپنے گھر (پاکستان) کو بھی۔

آج پاکستان کی نوجوان نسل جس تیزی سے بے راہ روی کے سمندر میں ڈوب رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، اور ہم اسی پر خوش ہیں کہ ہم ترقی کی منازل بہت  تیزی سے طے کررہے ہیںخدارا! کچھ خیال کریں،

اتنے ماڈرن نہ بنیں کہ اپنی ہی نسل کی شرافت کا جنازہ نکال دیں۔ہر قوم و معاشرے میں تہذیب و ثقافت کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس میں دین کا لحاظ رکھنا لازمی جز ہے۔

زندہ اور غیرت مند قومیں یوں اپنی تہذیب کا جنازہ نہیں نکالتی۔ مشرف دور میں یہ لچر پن اور آزادی بام عروج کو پہنچی اور اب اپنی آخری حدوں کو چھونے لگی ہے۔جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر قوم کے معماروں کا دین اور مذہب داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ درس گاہوں کو رقص گاہیں بنا دیا ہے

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button