ماہر نقب زن
تھانہ لیاقت پور ضلع رحیم یار خان کی تعیناتی بہت اچھی تھی کچھ عرصہ بعد انسپکٹر طفیل وٹو صاحب کا تبادلہ تھانہ لیاقت پور سے ہو گیا اور ان کی جگہ انسپکٹر چوہدری دلدار جو کہ قبل ازیں ایس ایچ او ظاہرپیر تھے لیاقت پور تعینات ہوگئے۔وہ مجھ سے ناراض تھے کیونکہ انھوں نے میرا تبادلہ ایس ایس پی کو کہہ کے ظاہر پیر کروایا تھا لیکن میں نے اپنا تبادلہ لیاقت پور کروا لیا تھا۔
میں نے انھیں اپنے گھریلو مسائل کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ میری فیملی احمد پور شرقیہ میں رہتی ہے اس لیے میں نے اپنا تبادلہ لیاقت پور کروایا تھا جس سے ان کا غصہ کُچھ کم ہو گیا ایس ایچ او چوہدری دلدار غصہ کے بہت تیزتھے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اپنے ماتحت ملازمین سے بدتمیزی بھی کرتے تھے۔
یہ 1989ء کی بات ہے والدہ صاحبہ نے عمرہ پہ جانے کا ارادہ کیا اور مجھے بھی ساتھ چلنے کا کہا چنانچہ میں نے ایک مہینہ” ایکس پاکستان لیو "لیے کر اپنی فیملی کیساتھ عمرہ پہ چلا گیا۔
وہ حسین لمحات جو بارگاہ الہٰی میں گزارے خانہ کعبہ کو پہلی دفعہ دیکھا وہ آج بھی میری زندگی کا سرمایہ ہیں اس کے بعد بھی مجھے کئی بار عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی جو مجھ پر اللہ کا کرم ہے
ایک مہینہ عمرہ کی رخصت گزارنے کے بعد میں نے واپس تھانہ لیاقت پور میں حاضری کروائی۔جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ایس ایچ او چوہدری دلدار چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے ماتحت ملازمین پر آگ بگولہ ہو جاتے تھے مجھے کام کرنے کا بلکل مزہ نہیں آرہا تھا۔
ہمارے ایس ایس پی مرزا یسین کا بھی تبادلہ ہو گیا ان کی جگہ حاجی حبیب الرحمان بطور ایس ایس پی تبدیل ہو کر آئے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایماندار ہونے کیساتھ ساتھ سخت مزاج ہیں۔
ایس ایس پی حبیب الرحمان نے پولیس لائنز رحیم یار خان میں تما م ضلع کے اے ایس آئز، سب انسپکٹر زاور انسپکٹرزکا بلوایا اور ان سب سے اس بات کا حلف لیا کہ آئندہ کوئی رشوت نہیں لے گا۔اس دن SSPصاحب نے ملازمین کے تبادلے بھی کیے اور میرا تبادلہ تھانہ سٹی خان پور ہوگیا۔
خان پور سٹی میری جائے پیدائش بھی ہے میرے والد صاحب سردار امان اُللہ خان یہاں ایکسائز انسپکٹر تعینات رہے ان کی نسبت سے بھی کافی معزیزین مجھے جانتے تھے۔خان پور کے رہنے والے لوگ بڑے ملنسار ہیں جو افسران ان کے ساتھ گھل مل جائیں تو یہ اُن کے ساتھ شیر وشکر ہو جاتے ہیں مگر سختی کرنے والے افسر سے فوری طور پر تو دب جاتے ہیں مگر موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور جیسے ہی کوئی کمزوری ہاتھ میں آجائے پھر معافی نہیں دیتے
ملک خدا بخش تھانہ خان پور سٹی میں ایس ایچ او تعینات تھے اور عبدالمجید باجوہ خان پور کی ڈی ایس پی تھے۔میں نے تھانہ خان پور کی تعیناتی میں بہت زیادہ محنت کی۔جرائم پیشہ افراد کے گھروں پر ریڈ کیے اسی طرح جواخانوں اور قبحہ خانوں پر بھی ریڈکیے کیونکہ جرائم پیشہ افراد واردات کی رقم ہمیشہ جوا اور قبحہ خانوں پر لُٹاتے ہیں
عبدالمجید باجوہ ڈی ایس میرے کام کی وجہ سے وہ میری عزت کرتے تھے۔ ملک خدا بخش SHO تشدد کرنے کے بہت شوقین تھے ان پر لوگوں پہ تشدد کرنے کے کئی مقدمات بھی درج ہوئے تھے۔
ایک دن میں ان کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص دفتر میں آیا جسے SHOنے کرسی پر بیٹھنے کا کہا۔محرر کو گھنٹی دی جب وہ اندر آیا تو اسے چائے کا بولا۔ملک صاحب اور اُس شخص کی باتیں کرنے سے لگ رہا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے بُہت اچھے جاننے والے ہیں۔میں نے مناسب سمجھا کہ اٹھ کہ چلا جاؤں تا کہ ان کی گفتگو میں مخل نہ ہوں۔
میں بھی اپنے دفتر میں جاکر بیٹھ گیامیرے ساتھ اسی کمرہ میں رانا علی اکبر ASIاور جام منظور چوہان ASIبھی ساتھ بیٹھا کرتے تھے جو مجھ سے جونئیر تھے اور ہم نے رہائش بھی اکٹھی رکھی ہوئی تھی کُچھ وقت ہی گزرا ہو گا کہ محرر تھانہ میرے دفتر میں داخل ہوا اور کہا کہ صاحب آپکو یاد فرما رہے ہیں جب میں ایس ایچ او کے دفتر میں داخل ہوا تو وہاں عجیب منظر تھا کرسی پہ بیٹھا ہوا وہ شخص جو ملک صاحب کا مہمان تھا
اب اُن کے سامنے کھڑا ہوا تھا میز پر کچھ نقدی اور سامان پڑا ہوا تھا۔ ملک صاحب مجھے بولے اس شخص نے مجھے دس ہزار روپیہ رشوت دینے کی کوشش کی ہے رشوت ستانی کی تحریر بنا کے لے آؤ اور محر ر کو کہا اس شخص کو حوالات تھانہ میں بند کردو میں حیران تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ شخص کرسی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا اور اب اس کو حوالات میں بند کرنے کا حکم ہوا ہے۔ میں دفتر سے باہر نکل گیا جرم رشوت ستانی کی تحریر بنائی اور SHO سے دستخط کرائے۔میں نے ہمت کی اور SHOصاحب سے پوچھا کہ سر مجھے تو لگا یہ آپکا دوست ہے اور ابھی آپ نے اسکو گرفتار کروا دیا تو بولے تھانہ کوٹ سمابہ میں تعیناتی کے دوران اسکی چوری ہوئی تھی جسکا ملزم میں نے گرفتار کر لیا تھا تفتیش کے دوران ملزم کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور مجھ پہ مقدمہ درج ہوگیا تھا میں نے اسکی مدد کی لیکن اس نے مجھے ایک دن بھی نہ پوچھا اور اتنے عرصہ بعد اب مجھے ملنے آگیا ہے اورمجھے پیسے دینے کی کوشش کر رہا تھا چنانچہ میں نے بھی اس پر مقد مہ درج کردیا میرے لیے یہ بھی ایک نیا سبق تھا۔کہ پولیس میں ایسا بھی کیا جاتا ہے۔ملک خدا بخش (مرحوم) جھوٹے مقدمات درج کرنے کے ماہر تھے۔ایک دفعہ تھانہ ترنڈہ محمدپناہ میں ایک ٹرک پکڑا جس میں سے سو بکریاں لوڈ تھیں ملک صاحب ساری بکریں جوری کی بنا دیں اور ایک سو مقدمات بجرم 411ت پ درج کیے اور ضلع میں پہلی پوزیشن حاصل کی ملک خدا بخش انسپکٹر لاہور میں نامعلوم ملزمان نے قتل کردیا تھا ۔ملک خدابخش کے ساتھ کُچھ عرصہ تعیناتی میں مجھے سمجھ آگئی کہ وہ بلکل قابل اعتبار نہ تھے
ملک خدا بخش کچھ عرصہ تک ایس ایچ او تعینات رہے ان کے تبادلہ کے بعد چوہدری محمد یوسف جٹ انسپکٹر تعینات ہو گئے۔ چوہدری صاحب بڑے بردبار اور سمجھدار پولیس آفیسر تھے۔انہیں دنوں صدر بازار خان پور میں نقب زنی کی ایک عجیب واردات ہوئی۔صبح صبح چوکیدار نے اطلاع دی کے رات کو نامعلوم چور نے زرگر کی دوکان کی چھت میں نقب لگائی چھت کی دو ٹائیلز نکالیں رسی کے زریعے نیچے اترا اور دکان کے اندر آہنی الماری کو توڑ کر کافی سونا اور چاندی نکال کر لے گیا۔اس اطلاع پر میں بھی کے ہمراہ موقع واردات پہ صرافہ بازار پہنچ گیا۔دوکان سی ملحقہ ایک سیڑھی تھی چھت پر ایک رسی پڑی ہوئی تھی جس میں گانٹھیں لگی ہوئی تھیں چھت میں نقب لگی ہوئی تھی کے دو ٹائیلز اُکھڑی ہوئی تھیں جس میں سے گزر کر نامعلوم چور نیچے اُترا اور آہنی الماری کو توڑ کر سونا ، چاندی سرقہ کر کے لے گیا
دوکان کے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ آہنی الماری کو بڑے ماہرانہ انداز سے کاٹا گیا تھا۔یہ ایک نیا طریقہ واردات تھا۔” یہ چوری ہوہی نہیں سکتی ” چویدری یوسف نے روائیتی پولیس آفسر والے میں بولا اور جیولرز شاپ کے مالک پر شک کا اظہار کرنا شروع کردیا اور اسے جھوٹا قرار دے دیا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ تقریباََایک فٹ کے سوراخ سے گزر کر کوئی انسان چوری کرسکتا ہے۔
ایس ایچ او صاحب کی اس بات پر صرافہ بازار کے تاجران مشتعل ہو گئے۔ جنھیں میں نے سمجھایا کہ آپ جیسا کہتے ہیں آپکا مقد مہ در ج ہوجائے گا۔مقد مہ تو درج ہو گیا مگر تفتیش بھی میرے حوالے کردی گئی۔پتہ نہیں کیوں مجھے اس بات کا قوی یقین تھا کہ یہ چوری ہوئی ہے مگر میرا ایس ایچ او بات ماننے کو تیار نہ تھا دو دن بعد انجمن تاجران خانپور کا ایک وفد رحیم یار خان SSPصاحب کو ملاجنھوں نے مجھے فوری رحیم یار خان آنے کا حکم دیا میں نے SSPصاحب کو سارے حالات بتائے اور یقین دلایا کہ بہت جلد اس چور کو تلاش کرلوں گا ایس ایس پی بولے ایس ایچ او تو کہتا ہے چوری نہیں ہوئی میں نے اُنہیں کہا سر چوری ہوئی ہے اور انشا اللہ ڈھونڈوں گا
کہتے ہیں کہ جب انسان نیک نیتی سے اپنا کام کرے تو اللہ بھی اسکی مدد کرتا ہے۔تقریباََ ایک ہفتہ بعد غلہ منڈی خانپور میں سے رات کو چوکیدار ایک مشکوک شخص کو پکڑاکر تھانہ پر لے آئے جو ایک دوکان کی چھت پہ چھپ کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس دن میری گشت تھی میں بھی تھانہ پر پہنچ گیا گنجے سر والا مضبوط جسم کامالک جسکی عمر تقریباََ چالیس سال تھی اور جو پاگلوں جیسی حرکتیں کررہا تھا۔ سب سے اہم بات وہ رسی تھی جو چوکیداروں کو اس کے پاس سے ملی تھی مگروہ شخص نہ تو اپنا نام بتا رہا تھا اور نہ ہی اس بات کو تسلیم کر رہا تھا کہ یہ رسی اس کی ہے۔صبح تک تفتیش کے باوجود اس شخص نے اپنی زبان نہ کھولی۔مایوس ہوکر میں نے اسے حوالات تھانہ میں بند کروایا اور اپنے گھر چلا گیا۔
صبح تقریباََ 10بجے دوبارہ آیا تو چوہدری یوسف تھانہ پر آچکے تھے میں نے ان کو تمام حالات بتائے چوہدری یوسف بہت سمجھدار پولیس آفیسر تھے انھوں نے میری، جام منظور اور علی اکبرASIکی ڈیوٹی لگا دی کہ 8/8گھنٹے ڈیوٹی کریں اور اس مشکوک شخص کو سونے نہ دیں چنانچہ ہم نے مکمل نیک نیتی سے اپنی ڈیوٹی کرنی شروع کردی۔اس شخص کو اچھا کھانا کھلاتے،دودھ پلاتے مگر سونے نہ دیتے۔میں نے کسی انسان کو مسلسل چار راتیں اور چار دن جاگتے ہوئے پہلی بار دیکھا۔انتہائی مضبوط اعصاب کا وہ شخص پانچوں دن بول پڑا کہ اُسکی بس ہوگئی ہے جو پوچھنا چاہتے ہیں پوچھیں میں اُسے فوری طور پر SHOچوہدری یوسف کے پاس لے گیا
اس مشکوک شخص نے اپنا نام فرزند علی بتایا۔جوچوک شہباز ملتان کو رہائشی تھا مزید بتایا کہ اسے جوا کھیلنے کی عادت ہے اسکی دو شادیاں ہیں ایک بیوی اور بچے ملتان چوک شہبار میں رہتے ہیں جبکہ دوسری بیوی کو علیحدہ گھر لے کہ رکھا ہوا ہے۔وہ یہ بات بھی مان گیا کہ صرافہ بازار والی چوری بھی اس نے کی ہے اور سارا سونا ملتان میں ایک صراف کو بیچ دیا پہلے بھی جتنی وارداتیں کیں انکاسونا بھی اسی صراف کو بیچتا ہوں۔
اس بات کا چوہدری یوسف SHOیقین نہیں کررہے تھے انھوں نے کہا کہ تم مجھے اس جگہ لے جاؤ جہاں پہ چوری کی تھی اور پھر اسی سوراخ سے رسی کے ساتھ نیچے اتر کے دیکھاؤ۔چنانچہ فرزند علی ہمیں سیدھا صرافہ بازار اسی دوکان پر لے کہ گیا جہاں اس نے سونا چوری کیا تھا وہاں پہنچ کر بتایا کہ جیسے ہی شام کو دوکانیں بند ہوئیں میں رسی اور اپنے اوزارں کیساتھ بذریعہ سیڑھی دوکان کی چھت پر پہنچ گیا اور چھپ کر بیٹھا رہا۔رات کے پچھلے پہر جب بازار میں آمد رفت ختم ہوگئ اور چوکیدار بھی سوگیا تو میں نے اپناکام شروع کردیا۔
مدعی مقدمہ چھت کی مرمت کروا چکا تھا مگر فرزند علی نے دوبارہ چھت میں سوراخ کیا اور رسی کے زریعے چھت نیچے اترنے کا مظاہرہ کیا ہم سب حیران و پریشان تھے کہ اس چھوٹے سے سوراخ سے ایک انسان کیسے گزر سکتا ہے۔
فوری طور پر چوہدری یوسف خود تیار ہوئے نفری ہمراہ لی میں بھی ان کیساتھ تھا اور ملتا ن روانہ ہوگئے۔جہاں فرزند کے گھر ریڈ کیا محلے والے پریشان ہوگئے جب انھیں پتہ چلا کہ فرزند چوری کرتا ہے اسکے بارے میں یہ تو مشہور تھا کہ یہ صرف جوا کھیلتا ہے مگر چوری کرنے کا انکشاف پہلی بار ہو ا۔رات کو ملتان ہوٹل میں قیام کیا اگلی صبح ملزم کو لیکر صرافہ بازار ملتان میں اس دوکان پر پہنچے جہاں ملزم چوری کا سونا بیچتا تھا۔دوکان پر ایک باریش شخص بیٹھا ہوا تھا۔فرزند علی نے بتایا کہ یہی وہ شخص ہے جسکو میں سونا بیچتا ہوں۔مگر وہ شخص یہ با ت ماننے کو بالکل تیار نہ تھا بلکہ اس نے زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ جس پرصرافہ بازارکے تمام دوکاندار اکٹھے ہو گئے اور ہمیں دھمکیاں دینی شروع کردیں۔میرے سسرصاحب ممتاز آباد ملتان میں رہتے تھے صرافہ بازار کا صدر حاجی عبدلروف ان کا ہمسایہ تھا جو مجھے اچھی طرح جانتا تھا میں نے اسے ساری کہانی سنائی جس پر اس نے یقین دہانی کروائی کہ اگر واقعی سونا اسی سنیارے نے لیا ہے اور پوری قیمت ادا نہیں کی تو یہ تمام سونا واپس کرے گا۔ہمیں دو دن کی مہلت دیں اور اسے گرفتار نہ کریں۔
مجھے چوہدری یوسف SHOالگ لے گئے اور کہنے لگے انھوں نے بعد میں قابو نہیں آناجو بھی کرنا ہے آج ہی کریں میں نے صرافہ بازار کے صدر کو اس بات پہ قائل کرلیا دوگھنٹے بحث مباحثہ کے بعد سنیارے نے تسلیم کرلیا کہ واقعی اس نے سونا لیا ہے اور قیمت بھی پوری نہیں دی۔اس بات کے ثابت ہونے کے بعد آدھی آدائیگی کردی گئی اور بقایا کی آدائیگی کی گارنٹی صدر صرافہ بازار ملتان نے صدر صرافہ بازار خانپور کو دے دی۔لیکن اس بات کی رعایت بھی لے لی گئی کہ سینارا جس نے چوری کا مال لیا تھا کو چالان نہ کیاجائے۔فرزند علی اس مقدمہ میں چالان ہو اکچھ عرصہ بعد اسکی ضمانت ہو گئی مگر اس نے چوری کرنا نہ چھوڑی۔
اس تمام واقعہ سے میں اپنے نئے پولیس آفسران کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تشدد صرف انسان کو دماغی طور پر بریک کرنے کے کام آتا ہے لیکن اگر آپ اسکی رہائی کے تمام راستہ بند کردیں یا تھوڑی سے محنت کرلیں تو کوئی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کا مالک سچ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔صرف جسمانی تشدد تفتیش نہیں ہے