دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی

90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا

خان پور کی تاریخ کا پہلا اور ابھی تک تو آخری اصلی پولیس مقابلہ، آنکھوں دیکھا حال۔۔ صادق شاہ کون تھا؟ کہاں کہاں اور کتنی ڈکیتیاں ڈالیں۔۔ کتنے قتل کیے۔۔ صادق شاہ کو کس علاقے میں پار کیا گیا۔ ۔ صادق شاہ نے آخری وقت کیا فرمائشیں کی تھیں۔۔

خان پور کی تاریخ کا پہلا اور ابھی تک تو آخری اصلی پولیس مقابلہ، آنکھوں دیکھا حال۔۔ صادق شاہ کون تھا؟ کہاں کہاں اور کتنی ڈکیتیاں ڈالیں۔۔ کتنے قتل کیے۔۔ صادق شاہ کو کس علاقے میں پار کیا گیا۔ ۔ صادق شاہ نے آخری وقت کیا فرمائشیں کی تھیں۔۔ پولیس کے 30سال پرانے ریکارڈ سے تحقیق کے بعد صحافی  تہلکہ خیز سچی کہانی سامنے لے آئے

جوں جوں وارداتیں بڑھ رہی تھیں ان علاقوں میں خوف و ہراس کی فضا بھی بڑھ رہی تھی۔ ابتدا میں ان کی زیادہ تر وارداتیں ضلع مظفرگڑھ، بہاولپور،ملتان اور لودھراں کے اطراف میں رہیں، جب وہاں ان کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو ان لوگوں نے ضلع رحیم یارخاں اور خاص طور پر تحصیل خان پور کا رخ کرلیا۔
یہ لوگ ضلع رحیم یارخاں اس طرح آتے جاتے تھے کہ پولیس بھی حیران تھی کہ یہ کس جانب سے آتے ہیں، سفاک لوگوں کا یہ گروہ ہیڈ پنجند کراس کرکے روڈ کے ذریعے نہیں بلکہ پنجند نہر کا کنارہ پکڑتا اور ہیڈ ملکانی سے ہوتے ہوئے یہ موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر خان بیلہ کے قریب سے ضلع رحیم یار خاں میں گھستے تھے، فروری1993 کی ایک سرد رات کو یہ گروہ ہیڈ ملکانی کراس کرکے جب آگے آیا تو خان بیلہ کے قریب نہر کی پٹڑی پر ٹمبر مافیا کہ کچھ ارکان نہر کنارے درختوں کو رات کی تاریکی میں کاٹ رہے تھے۔

ان لوگوں کا گروہ وہاں سے گزر ہوا۔ راستہ بند دیکھ کر انہوں نے درخت کاٹنے والوں کو للکارا تو آگے سے انہوں نے بھی رعب ڈال دیا۔ اب ان کو تو پتہ نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے رعب اس طرح ہی ڈالا جیسے کسی عام بندے پر لوگ رعب ڈال کر بات کرتے ہیں مگر آگے سے وہ لوگ تھے جو اب تک 12سے زاید ڈکیتیوں میں مزاحمت پر گھر کے کسی نہ کسی فرد کو موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔


انہوں نے رعب ڈالنے والے کی آواز کی سمت کا اندازہ لگایا اور اسی جانب ایک”چھٹا“ماردیا۔ یعنی کلاشن کا برسٹ۔
رعب دار اور گرجدار آوازتو خاموش ہوگئی اور اس واردات میں اس علاقے کا زمیندار اسد گوپانگ جان کی بازی ہار گیا۔ مگر اس کا دوسرا ساتھی جو دائیں جانب تھا اس نے فائر کھول دیا۔

الغرض اس گینگ کا بھی ایک ساتھی ڈھے گیا۔ اب سچویشن عجیب ہوگئی وہ لوگ اس کوشش میں تھے کہ اس زخمی ساتھی کو یہاں سے لے جائیں مگر زخمی کو جب وہ موٹر سائیکل پر بٹھاتے تو وہ لڑھک جاتا۔ دوسری جانب والا شخص درخت کی اوٹ لئے مسلسل فائر کررہا تھا۔ فائرنگ کی آوازوں پر قریبی گاؤں کے لوگ بھی اسلحہ اٹھائے اسی جانب آنے لگے اگرچہ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ فائرنگ کن کن کے درمیان ہورہی ہے، آخرکارڈاکوؤں کے گینگ نے فیصلہ کیا کہ مزید نقصان اٹھانے سے بہتر ہے کہ پیچھے ہٹا جائے۔

وہ گینگ ایک زخمی ساتھی کو چھوڑ کر پچھلے پاؤں راہ فرار اختیار کرگیا۔
فائرنگ کی مسلسل آوازوں سے نہرکنارے قائم دوتین بستیوں کے لوگ بھی آہستہ آہستہ اپنے اپنے ہتھیار اٹھا کر اس جانب آچکے تھے۔ اندھیرے میں صورتحال کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔ لوگ محتاط انداز میں قدم بڑھا رہے تھے اسی دوران آہستہ آہستہ اندھیرا چھٹنے لگا اور سپیدہ سحر نمودار ہوا، لوگ آگے بڑھے تو دیکھا ان کے علاقے کا ایک بندہ جان کی بازی ہار چکا تھا جب کہ ایک نامعلوم شخص شدید زخمی حالت میں وہاں موجود تھا۔ پولیس کو کسی نہ کسی صورت اطلاع دی گئی، (ان دنوں آمد ورفت کے ذرائع اتنے آسان نہیں تھے جیسے آج کل ہیں کہ ایک کال کرو کبھی منٹوں میں اور کبھی ایک آدھ گھنٹے میں پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ جاتی ہے) دو گھنٹے بعد پولیس پہنچی، صورتحال کو سمجھنے میں انہیں بھی دقت ہورہی تھی مگر جو بندہ درخت کٹوا رہاتھا وہ سامنے آنے سے کترا رہا تھا آخرکار وہ سامنے آیا اور اس نے بتلایا کہ رات یہ واقعہ ہوا ہے یعنی ہم لوگ درخت کاٹ رہے تھے زخمی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ان لوگوں کا یہاں سے گزر ہوا۔ راستہ بند تھا انہوں نے ہمیں گالی دے کرکہاکہ راستہ کھولو۔


آگے سے ہم بھی بلوچ تھے ہم نے اپنا کام کیا یعنی فائر کردیا۔ اب آگے سے ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواباً شدید فائرنگ کردی۔ ہمارا بندہ تو جان سے گیا مگر ہم نے اُن کا بھی اک آدمی گرالیا ہے اب اس سے پوچھوکہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے اور کہاں جا رہے تھے؟
پولیس نے زخمی کو اٹھایا اسے ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد رحیم یارخان شفٹ کیا گیا اس دوران پولیس نے اس کی حفاظت کے لئے بھی سخت اقدامات کررکھے تھے۔

زخمی کی حالت سنبھلی تو اس سے بیان لیا گیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ میرا نام فلک شیر عرف فلکا ہے میرا تعلق میلسی سے ہے اور ہمارا دس افراد پر مشتمل گروہ ہے جس کی سربراہی دنیا پور کا صادق شاہ کرتا ہے۔ اس نے باقی نام بھی بتائے کہ اس گروہ میں ستاری گوپانگ ساکن بیٹ ملاں والی علی پور، اللہ ڈتہ بوہڑ اور عبدالحمید عرف حمیدا ماچھی ساکن کان دی واہی خان پور، انور ماچھی خان پور، اشرف، سعید عرف ڈیڈا، رحیماں، کریماں ساکن کہروڑ پکا وغیرہ ہیں

پولیس کو اس واقعے میں ایک بڑی کامیابی یہ ملی کہ اسے یہ پتہ چل گیا کہ یہی وہی گینگ ہےجو چار پانچ اضلاع میں سنگین قسم کی ڈکیتی کی وارداتیں تسلسل سے کررہا تھا۔ ان وارداتوں کے دوران ظالم ڈکیت ذرا سی مزاحمت پر بندے کو جان سے ماردیتے تھے اور مزاحمت کی سزا صرف قتل تک نہ رہتی بلکہ جس گھر کے مکین مزاحمت کرتے وہاں یہ سفاک درندے گھر کی کسی نہ کسی خاتون سے ریپ بھی کرتے تھے۔


، ابھی بہت سی مزید معلومات لینی تھیں مگر فلک زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ پولیس کو کوئی زیادہ معلومات تو نہ ملیں البتہ یہ بات عیاں ہوگئی کہ سنگین اور خوفناک قسم کی وارداتیں کون کون کر رہے ہیں۔
پولیس نے فوری طور پر صادق شاہ ولد منظور شاہ قوم قریشی سکنہ چک 155/W.B دنیا پور، عبدالستار عرف ستاری گوپانگ ولد محمدرمضان ساکن بیٹ مُلاں والی علی پور، اور کان دی واہی خان پور، کہروڑ پکا، مظفرگڑھ اور لودھراں میں چھاپے مار کر ان ڈاکوؤں کے قریبی رشتے داروں کو اٹھا لیا۔

پولیس کے ریکارڈ میں یہ تمام لوگ کچھ عرصہ پہلے تک چھوٹی موٹی چوری کی وارداتیں کرتے تھے اور یہ سب جیل جاچکے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا دراصل ان لوگوں کا پہلے سے آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا یہ بہاولپور،مظفرگڑھ، رحیم یارخاں کی جیلوں میں اکٹھے ہوئے اور پھر یہ گروہ بن گیا اور انہوں نے ایسی ایسی وارداتیں کیں کہ الامان و الحفیظ،
فلکا کی موت کے بعد یہ گروہ کچھ عرصے کے لئے بالکل خاموش ہوگیا کیونکہ انہیں یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ فلکا زندہ ہی پولیس کے ہاتھ لگ گیا تھا اور ہمارا اب پولیس کو پتہ چل گیا ہے۔
اس واقعہ کے دوہفتے بعد لودھراں ملتان روڈ پر ایک گھر میں واردات کی گئی۔ اس واردات میں بھی مزاحمت پر گھر کاایک نوجوان ماردیا جاتا ہے اور ایک خاتون کا گھر والوں کے سامنے ریپ کیا کیا گیا۔ پولیس کی ساری توجہ ضلع لودھراں کے اردگرد مرکوز ہوگئی اور یہ آن نکلے ضلع رحیم یار خاں میں۔

انہوں نے ابتدا میں چنی گوٹھ، اوچ شریف، احمد پور شرقیہ، لیاقت پور کے علاقوں میں وارداتیں کیں، پھر خان پور کے علاقے سہجہ میں ایک گھر میں ڈکیتی کی۔ دوران ڈکیتی گھر کی خواتین کو برہنہ کیا ایک خاتون کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تو خاتون کی سخت مزاحمت پر صادق شاہ نے ستاری گوپانگ کو کہا کہ باہر سے ایک ”کلا“ جس سے بکری بندھی ہوئی تھی،لے آئو۔ ستاری گوپانگ صحن میں گیا اور ایک کلے کو پاؤں سے ٹھوکر ماری جب وہ نہ نکلا تو اس نے کلاشنکوف کے بٹ مار کر کلا اکھاڑا اور صادق شاہ کو آن تھمایا۔ اس نے بڑی بے رحمی سے وہ کلا خاتون کی شرمگاہ پر رکھا اور پھر کلاشن کے بٹ سے ٹھوک دیا، (یاد رہے یہ بات خود ستاری گوپانگ نے مجھے بتائی تھی)۔

ان دنوں ضلع رحیم یار خاں میں ایس ایس پی تھے تحسین انور شاہ تھے، اور یہ خاصے متحرک، فعال اور فرض شناس پولیس آفیسر تھے۔ اتنی سنگین واردات پر پولیس سخت پریشان تھی۔ گو آج جیسا دور نہ تھا یعنی سوشل میڈیا کا، اس لئے ایسی وارداتیں اتنا ہیجان اور اشتعال نہیں پھیلاتی تھیں، جتنا ہیجان، سنسنی اور Hipe Create آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوجاتی ہے۔ البتہ خوف و ہراس کی فضا ضرور پیدا کردیتی تھیں۔
جن کے گھروں میں ایسی واردات ہوتی تو وہ صرف پولیس کو اس واردات کی سنگینی بارے بتاتے تھے لوگوں کو یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ ان ظالموں نے گھر میں عصمت دری بھی کی ہے۔
پھر ایک ایسی ہی واردات چنی گوٹھ کی واہلہ فیملی کے ساتھ ہوتی ہے، اس واردات میں بھی سہجہ کی طرح بڑی سنگدلی، بے رحمی اور سفاکی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے

اس واردات کے تیسرے دن ایسی ہی واردات مظفر گڑھ میں ہوتی ہے، پھر ان وارداتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل نکلتا ہے، علی پور، سیت پور، میلسی، لودھراں۔ ملتان کے کچھ علاقے بھی ان کی زد میں آئے، تسلسل سے وارداتیں ہورہی تھیں پولیس کو آج کل جیسی سہولتیں حاصل نہیں تھیں اور نہ ہی ملزمان کے پاس موبائل تھے کہ جیوفینسنگ کرکے معلومات لے لی جاتیں۔البتہ طریقہ واردات اور متاثرہ گھرانے جو حلیہ بتاتے وہ نشاندہی کرتا کہ یہ واردات بھی صادق شاہ گینگ نے کی ہے۔ پولیس نے ان افراد کے گھرانوں کے جو لوگ اٹھائے تھے ان سے یہ وعدے وعید لئے گئے کہ یہ جب بھی کبھی گھر آئیں تم لوگوں نے ہمیں اطلاع دینی ہے مگر وہ گھروں میں واپس تو جا بھی نہیں رہے تھے۔اس لئے ملتان اور مظفرگڑھ کی پولیس ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہی تھی۔ پھر اس گروہ نے خان پور تحصیل کا رخ کرلیا۔

خان پور میں دوسری واردات اس گینگ نے چاہ بڈھے والا موضع گھنیاں میں محمد انور بھلر (لاہوری)کے گھر کی جہاں یہ لوگ 12جولائی 1993رات ساڑھے گیارہ بجے داخل ہوئے، گھر کی خواتین کو ایک کمرے میں محبوس کرلیا اور لوٹ مار شروع کردی۔ گھر کے مرد سامنے ڈیرے پر سوئے ہوئے تھے۔ ان کی فائرنگ کی آواز سے وہ اٹھے اور اپنے گھر کی جانب بڑھے تو کوٹھے پر موجود شخص نے اوپر سے فائرنگ کردی۔ ایک فائر محمد انور بھلر کے بیٹے ریاست علی بھلر کو لگا(ایف آئی آر میں شرافت علی بھلر لکھا ہوا ہے، دراصل یہ فائر اس کے بھائی ریاست علی کو لگا تھا) ایف آئی آر کے مطابق وہ فائر ریاست علی کے چوتڑوں کو متاثر کرتا ہوا سامنے کی جانب نکلا تو اس سے آلہ تناسل بھی زخمی ہوگیا۔
بعد ازاں ان افراد نے الماریاں اور صندوقیں توڑ کراس گھر سے تقریباً 40تولے طلائی زیورات، 25ہزار روپے نقد اور دیگر قیمتی سامان و پارچات لوٹ کر لے گئے،مدعیان نے اپنے ہمسائے جن کے ساتھ ان کے تنازعات تھے کلاچی برادری کے ان کو اس ڈکیتی میں نہ صرف نامزد کروایا بلکہ کئی روز تک پولیس کے ذریعے ان کی ”تفتیش“ بھی کرائی جاتی رہی۔
خانپور تحصیل میں تیسری واردات فیروزہ اور امیرپور کے درمیانی چک 70میں کی گئی، صادق شاہ اور حمیدے ماچھی نے خان محمد نامی شخص اور اس کی بیوی سرداراں مائی کو بڑی بے رحمی سے قتل کیا، بتایا جاتا ہے کہ حمیدا ماچھی جو بنیادی طور پر اُساری کا مستری تھا یعنی باقاعدہ پروفیشنل ڈکیت نہیں تھا وہ ڈکیت گینگ میں شامل اس لئے ہوا کہ اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لے سکے۔

بتایا جاتا ہے کہ سرداراں نامی لڑکی نے حمیدے ماچھی کے بھائی عبدالعزیز عرف بھورا ماچھی کو اپنے خاوند خان محمد کے ساتھ مل کر زہر دیکر قتل کروایا تھا۔ ، جس کا مقدمہ درج ہوا۔ خان محمد جیل چلا گیا۔ خان محمد ضمانت پر رہا ہوکر اپنے علاقے کوٹلہ مائی سے شفٹ ہوکر فیروزہ کے چک 70میں اپنی بہن سکینہ مائی دادپوتری کے پاس رہنے لگ گیا تھا۔ حمیدے ماچھی نے اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کی غرض سے خان محمد دادپوترے کو اس کی بہن کے گھر کے اندر چارپائی پر ہی درجن کے لگ بھگ گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارا جبکہ اس کی جواں سال بیوی سرداراں مائی کو برہنہ حالت میں ریلوے لائن پر لے آئے ۔ ان کا مقصد یہ تھاکہ اس عورت کو مقتول کی قبر پر جا کر ماریں گے مگر دن چڑھ آیا تھا اس لئے کئی میل پیدل بھگانے کے بعد آخرکار اس کے برہنہ وجود کو چھلنی کردیا۔ چوتھی واردات خان پور شہر کی ہے اور شہر کے اندر واردات کی گئی اور وہ ہے غریب آباد کے ملک سلطان محمود کونسلر مرحوم کے گھر۔
19 جنوری 1994بروز بدھ شام ساڑھے سات بجے کے لگ بھگ اس وقت کے کونسلر ملک سلطان محمود اپنی بیٹھک میں موجود تھےذ ان کا ڈرائیور خدابخش ان کے ہمراہ تھا۔ ڈیرے کا دروازہ کھلا تھا کہ اچانک تین مسلح افراد ڈیرے میں گھسے اور بیٹھک میں جا پہنچے۔
ملک سلطان محمود کے آگے کھانا رکھا تھا۔
وہ صورتحال بھانپ چکے تھے، کیونکہ تینوں افراد ان کے لئے اجنبی تھے مسلح بھی تھے ان کے ارادے بھی خطرناک واضح محسوس ہورہے تھے۔
ان میں ایک (صادق شاہ) ساتھ بیٹھ گیا دوسرا حمیدا ماچھی سامنے کھڑا ہوگیا، تیسرے یعنی اللہ ڈتہ بوہڑ نے فون کے تار کاٹے اور پھر دروازے میں کھڑا ہوکر ڈرائیور خدابخش کو قابو کر لیا۔
حمیدے ماچھی نے کہا ملک، کھا گھن، کھا گھن جیڑھا کجھ کھاونڑے تیڈا وقت آگے۔
ملک سلطان محمود نے کہا کہ وقت آگے تاں ول اونکوں کون روک سگدے؟
اتنی دیر میں ملک سلطان محمود مرحوم نے دو نوالے ان کے سامنے کھائے بھی اور انہیں بھی صلاح ماری۔ سئیں تساں وی روٹی کھاونڑی اے تاں کھاؤ؟
سامنے کھڑے شخص حمیدا ماچھی نے کہا، ملک تیکوں وڈا شوق اے چوہدریاں نال مقابلے دا، ڈیکھ گھدی ول ہنڑ تیڈا وقت قریب آگئے۔
مرحوم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ملک سلطان محمود بے شک اندر سے ہل چکے ہوں گے کہ یہ کیا آفت آگئی ہے مگر وہ سامنے کھڑے مسلح شخص (حمیدے ماچھی) سے بحث بھی کررہے تھے۔
موقع پر موجود ڈرائیور خدابخش کے بقول جب ملک سلطان محمود اور حمیدا ماچھی کے درمیان زیادہ سخت گفتگو شروع ہوئی تو ساتھ بیٹھے (صادق شاہ) نے ملک سلطان محمود پرغصے میں آکر فائرنگ کردی اور اپنے سردار کو فائرنگ کرتے دیکھ کر حمیدے ماچھی نے بھی فائرنگ کردی، مگر حمیدے ماچھی کی فائرنگ سے ایک فائر دروازے میں کھڑے اللہ ڈتہ بوہڑ کو جالگا جس سے وہ زخمی ہوگیا۔ اس صورتحال سے سارے ہی پریشان ہوگئے اور جب گھبرا ہٹ میں یہ لوگ باہر نکلے تو باہر پڑے ہل کی نوک بھی صادق شاہ کے دوسرے ساتھی حمیدے ماچھی کو لگ گئی جس سے وہ گھائل ہوگیا۔
صورتحال اچانک تبدیل ہوگئی صادق شاہ بھی گھبرا گیا مگر اس نے اپنے دونوں زخمی ساتھیوں کو نہ چھوڑا (اس سے پہلے وہ فلک شیر کو زخمی حالت
میں چھوڑ کر گئے تھے اور نقصان اٹھایا تھا) صادق شاہ نے دونوں زخمی ساتھیوں کو اٹھا کر ملک سلطان کے ڈیرے پر موجود ایک گدھاریڑھی پر لادا اور موقع سے فرار ہوگئے، (یہ ہم آپ کو آگے جاکر بتائیں گے کہ اتنے معروف بندے کو مارنے کے بعد یہ لوگ صرف گدھاگاڑی میں کیسے فرار ہوئے؟
صادق شاہ کوئی خوفناک شکل کا بندہ بھی نہیں تھا۔ اس نے 22سال کی عمر میں لڑکی کو اغوا کیا تھا۔ تین سال کی سزا ہوئی، 25 سال میں وہ جیل سے باہر آیا۔ پونے دو سال تک اس نے پانچ اضلاع میں وارداتیں کیں، وہ چھریرے بدن کا ایک نوجوان تھا اس نے اپنے خوبصورت چہرے پر شرعی داڑھی سجا رکھی تھی جس سے وہ بظاہر کسی دینی جماعت کا صالح رکن نظر آتا تھا۔ اس کی کوئی تصویر کسی کے پاس نہیں تھی۔
اس کو پولیس میں موجود چند لوگ ہی شکل سے پہچانتے تھے مگر وہ تو چھلاوہ تھا، پھر وہ پکڑا کیسے گیا؟
جسے پانچ اضلاع کی پولیس پاگلوں کی طرح تلاش کررہی تھے اسے چار مارچ 1994کو صبح دس بجے کے لگ بھگ جتوئی شہر کی جتوئی قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک عام سی گھریلو خاتون جو گھر میں موجود کپڑے دھورہی
نے پکڑایا تھا۔ اس نے کپڑے دھونے والی لکڑی کی تھاپی سے صادق شاہ جیسے خوفناک قاتل کو پہلے مارا اور پھر اس نے اُس ہجوم کے حوالے کیا جو صادق شاہ کے پیچھے دوڑ رہا تھا بظاہر ایک موٹر سائیکل کی چوری کے شبے میں۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button