آج ساری مصروفیت ختم | تحریر : فرحان عامر
استاد کی عزت و تکریم کا آج عملی اور قریبی مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ، اور دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ استاد کی عزت میں ہی کامیابی پنہاں ہے اور کامیابی کے راز سے پھر پردہ چاک ہوا،اور یقین ہوا کہ دنیا میں واحد رشتہ استاد کا ھے جو ھمیشہ اپنے شاگردوں کو اپنے سے زیادہ کامیاب و کامران دیکھنا چاھتا ھے.
ایک استاد ریٹایرڈ ہیڈ ماسٹر تونسہ ہائی اسکول غلام محمّد فریدی صاحب جو آج سے اکتالیس سال پہلے سردار عبدلباسط خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ و ممبر پنجاب بار کونسل کو پڑھاتے رہے اور آج ملے تو یقین جانییے خان صاحب کی جانب سے محبت و احترام دیکھ کے میں دنگ رہ گیا بلکل اس سے زیادہ پروٹوکول جو خان صاحب احسن بھوں یا اعظم نزیر تارڑ (قریبی تعلقات) کو دیتے ہیں آج کسی طرح بھی اس سے کم نہ تھا
میں آج ان کی محبت ( excitement ) دیکھ کرخود حیران تھا جیسا کہ ان کو زبردستی اپنی کرسی پے بٹھاننے کی کوشش ، ان کو رحیم یار خان روکنے کی ہر ممکن کوشش اور ان کے سامنے نظریں بھی نہ اٹھانا میرے لیۓ انتہائی حیرت کا باعث تھا اور ان کے الفاظ تھے کہ میں نے اپ کو دیکھنا تھا بس رحیم یار خان میں اسی لیے چلا آیا اس موقع پر عجیب سی خوشی میں خود بھی محسوس کر رہا تھا استاد کا ادب علم کی ترقی کا پہلا زینہ ہے کہ بے ادب چاہے کتابوں کا پہاڑ پڑھ لے لیکن وہ نہ کبھی خود نفع اٹھا سکے گا اور نہ ہی دوسرے لوگوں کو فائدہ دے سکے گا
ہمارے اسلاف تو ادب کے پیکر تھے کہ حضرت ربیع کہتے ہیں میں نے اپنے استاد امام شافعی کے سامنے ادب کی وجہ سے پانی تک نہیں پیتا تھا اور امام شافعی اپنے استاد امام مالک رحمہ اللہ علیہما کے سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ اس کی آواز سنائی نہ دے ،
اور دیکھیں معاف کرنا اور کسی کو عزت دینا کتنا آسان کام لگتا ہے مگر اس دور میں اور موجودہ ڈیجیٹل دنیا میں سب ایک دوسرے کو عزتوں کو تار تار کر رہے ہیں ور سب سے زیادہ کام بھی یہی ہو رہا ہے ، حضرت علی نے بھی ایک قول میں فرمایا اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کرنا تمہاری سب سے بڑی کمزوری ہے تو تم دنیا کے سب سے طاقتور انسان ہو ‘
پہلے استاد اخلاق و تربیت پر زور دیتے تھے تو ہی ایسے تابعدار شاگرد پیدا ہوتے ہیں جیسے میں اکثر لکھتا ہوں کہ ہم وہ آخری ایک دو پیڑیاں ہوں گی جو کہیں گی کہ ہم نے وہ دور دیکھے تھے جہاں لوگ ایک دوسرے جو سرہتے اور عزت دیتے تھے
جیسے اکثر ادبی لوگ کہتے ہیں کہ کتابوں کی یہ آخری صدی ہے ٹیکنالوجی کے جہاں فائدے ہیں وہاں کچھ اسے اثرات بھی مراتب ہو رہے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی طرح ہماری زندگیوں سے رشتے اور اخلاقیات ختم کر رہا ہے
باسط خان ویسے بھی اپنی نرم طبیعت اور اخلاق کی وجہ سے مشہور ہیں شائد میں کبھی سوچتا کہ ان کا یہ مثالی رویہ صرف وکلا جج صاحبان یا دنیاوی لوگوں کے لیے ہے مگر یقین پختہ ہو گیا کہ ان کی کامیابی کے پیچھے والدین کے ساتھ ساتھ استاذہ کی دعائیں بھی شامل ہیں ،
فریدی صاحب ریٹائر ہونے کے بعد بھی شعبہ تدریس سے منسلک ہیں اور پچاس سال سے زائد عرصے سے پڑھا رہے ہیں اور آج کل بھی ایک فلاحی تعلیمی ادارے میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں فریدی صاحب ایک مثال ہیں
آج ان کے گزرا ہوا وقت بہت کچھ سیکھا گیا اور بتا گیا کہ عزت دینا کسے کہتے ہیں سچ میں استاد ہی زمین سے آسمان تک پہنچانے والی ہستی ہےاستاد کی اہمیت اور ان کا مقام ومرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون مددگار ثابت ہوتا ہے.
استاد ہر ایک طالب علم کو ویسے ہی سنوارتا ہے جیسے ایک سونار دھات کے ٹکڑے کو سنوارتا ہے.استاد علم کے حصول کا برائے راست ایک ذریعہ ہے اسلئے انکی تکریم اور ان کے احترام کا حکم دیا گیا ہے ،
بڑا آدمی بننے کے لئے صرف بڑا عہدہ نہیں بلکہ بڑا ظرف اور بڑی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے استاد کا احترام اسلامی نقطہ نظر سے دو اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہےاور ساتھ تونسہ کے ایک اور ماہر تھے