صحافتی چورن بیچنے والے کون ؟

صحافتی چورن بیچنے والے کون ؟

صحافتی چورن بیچنے والے کون ؟

تحریر : فیاض محمود

ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ تم کیا کرتے ہو،تم بہت نیک اور پارسا ہو یا نہایت ہی کسی غلیظ شعبہ کے اہم پرزے ہو، بس ہر ماہ ہمارے کھاتہ میں 50ہزار روپے بھجواسکتے ہوتو تمہیں چینل کا کارڈ، لوگو اور اتھارٹی لیٹر جاری کردیا جائے گا۔

سیکورٹی کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے بھی جمع کرانے ہونگے اگر یہ سب منظور ہے تو کل سے تمہیں کام پر لگ جانا چاہیے ،

مگر سر میں تو نہایت غریب اور صحافت جیسے مقدس پیشہ کو بطور انسانی فلاح وبہبود جوائن کرنا چاہتاہوں ،میں نے جواب دیا ہی تھا کہ جواب آیا تمہارے جیسے لوگ صحافت میں مس فٹ ہیں ،

انہوںنے اپنا فیصلہ سنا دیا اور کہا کہ برائے مہربانی ہمارا وقت برباد نہ کریں اور راستہ ناپیں۔ جس پر میں ہکا بکا وہاں سے اٹھ کر باہر آگیا اور سوچنے لگا کہ شائد میں کسی صحافتی ادارے میں نہیں بلکہ کسی چٹی دلالی کے اڈے پر تھا جہاں ہرکام کے ریٹ فکس تھے اور اس میں کسی کی تعلیم ،مجبوری ،شوق یا جذبہ کا عمل دخل قطعاً نہیں تھا ۔

ایسی باتیں میں پہلے بھی سن چکا تھا مگر یہ چھوٹے لیول کی تھیں جس میں ادارے کا کارڈ اور دیگر اشیا کی مدمیں معمولی سیکورٹی 20ہزار روپے، ماہانہ 5ہزارروپے کا بزنس یا نقد بھجوانے کی ترغیب تھی مگر آج تو حد ہی ہوگئی میرا تو اعتبار ہی اٹھ گیا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے ۔
میرا نام شرافت علی ہے اور میں نے شعبہ پولیٹیکل سائنس سمیت صحافت کی بھی اعلیٰ ڈگری حاصل کررکھی ہے مجھے اپنے بچپن ہی سے لکھنے ،پڑھنے کی عادت نے مختلف رسائل و میگزینز میں چھوٹی موٹی تحریریں لکھنے کا بھی تجربہ رہاہے ،

مختلف چینلز پربیٹھے اینکرز کو دیکھنے اور سننے کے بعد میں اندر ایک جنون سے پیدا ہوا ،اسی بنیاد پر میں نے کوشش کی کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے شعبہ صحافت کو جوائن کرنا چاہیے

جس میں بہترین روزگار سمیت عزت واحترام اور اسے ایک الگ پہچان مل پائے گی مگر متعدد چینلز اور اخبارات میں اپنی سی ویز کے بعد اس طرح کی سودے بازی نے میرے اندر کے اچھے انسان کو دبوچنے کی بھی کوششیں مگر میں اپنے نام کی طرح ہی شریف بنا رہا اور کسی نامور چینل میں اپنے قدم نہ جما سکا ۔

یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں میرے بہت سے دوست صحافی حضرات ہیں جن کی تعلیم بھی معمولی سی تھی اور فیملی بیک گرائونڈ بھی تقریباً صفر ہی تھا اور صحافی بننے سے پہلے تو بالکل شرافت کی زندگی گزار رہے تھے تاہم صحافی بننے اور کسی نہ کسی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کا لوگو اٹھانے کے بعد وہ طرم خان بن چکے تھے اور بہت ہی کم عرصہ میں سائیکل ،موٹرسائیکل کو پیچھے چھوڑکر چمچماتی گاڑیوں میں نظرآتے ہیں

میں نے ان سے بھی اکثر یہ سوال کیاکہ کل تک تمہیں کوئی اپنے پاس بٹھاکر راضی نہیں تھا تو آج تم کسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے جس پر وہ ایک زور دار قہقہہ لگاتے اور کہتے کہ چھوڑو یار یہ راز کی باتیں ہیں انہیں راز ہی رہنے دو

،مگر میں بھی صحافتی قدروں سے اچھی طرح واقف تھا اور پھر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر انکی کھوج میں لگ گیا جس کے بعد مجھ پر نہایت ہی خطرناک اور ہوشربا قسم کے انکشافات ہوئے کہ یہ لوگ صحافتی اداروں کی آڑ میں جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں ،

کوئی چٹی دلالی کا ماہر بن چکا ہے تو کوئی جوئے کے اڈے چلانے اور وہاں سے منتھلی لینے کا ماہرہے، اسی طرح کسی نے ممنوعہ مشروب(شراب ) فروشی کا دھندہ شروع کررکھاہے اور کوئی قحبہ خانہ کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ خود بھی (مال) سپلائی میں کافی آگے جاچکاہے ۔

بہت سے لوگ صرف صحافی ہونے کا لیبل لگوانا پسند کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ دوقسم کی ہوتی ہیں یا تو وہ صحافیوں کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر صحافتی ٹیگ حاصل کرتے ہیں یا پھر اپنے ناجائز دھندوں کو شیلٹر دیکر اپنے کاروبار کو چمکانے ہیں۔
متعدد ایسے افراد بھی صحافت کا لبادہ اوڑھ چکے ہیں جو حادثاتی طورپر صحافت میں آئے اور پھر انہیں اپنے دونمبر کاروبار کے لیے صحافت کے نام پر ایک بہترین شیلٹر مل گیا جس کے ذریعہ وہ ایک معمولی دکان یا تھڑے سے اٹھ کر ایک مل اونر بن چکے ہیں ،

کسی نے چائے خانے سے نکل کر صحافتی آڑ سے دونمبر دھندے شروع کیے اور غریبوں کو مختلف قسم کے جھانسے دیکر کروڑوں روپے کمائے اور اب وہ انتظامیہ کی گڈ بک میں شامل ہوچکے ہیں ۔

کئی ایسے صحافی بھی دیکھے جنہیں خبر بنانے یا کالم نویسی کی الف ب بھی نہیں آتی مگر انکا طریقہ واردات بھی نہایت عجیب تھا وہ ایسے صحافی کو اپنے قریب کرلیتے جنہیں پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کی خبربنانے کی مہارت ہوتی ،

برائے نام صحافی ان پر فدا رہتے اور انکی چھوٹی موٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے پھر اپنے مطلب کی خبریں بنواتے ،چلواتے رہتے ۔

اس طرح وہ صحافتی لبادے میں چھپ کر ناصرف صحافتی اداروں کو بلکہ ضلعی انتظامیہ ،پولیس ودیگر ایجنسیز کو بھی الوبنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

یہ سب کچھ ایسا ہی ہے جیسے آپ بہت ہی زبردست ڈرامے کے نامور کرداروں کی اداکاری سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں مگر آپ کو قطعاً یہ علم نہیں ہوتا کہ کہانی کا رائٹر کون ہے یا اسے کون ڈائریکٹ کررہاہے یہ سب کردار گمنام صحافی کی طرح ہی چھپے رہتے ہیں ۔

غرضیکہ موجودہ صحافتی فیلڈ کو دیکھا جائے تو شائد ہی کوئی پیشہ ہو جہاں سے نکل کر لوگ صحافتی لبادہ نہ پہن چکے ہوں ، منشی ،عرضی نویس، موچی، تیلی، میراثی،دھوبی، پٹواری، ریڑھی بان، ٹیکسی ڈرائیور،کنڈیکٹر ،اتائی ڈاکٹر، کسان ،دکاندار،ٹھیکیدار،مختلف تنظیموں کے عہدیدار و فوکل پرسنز وغیرہ وغیرہ یہ سب ہی اس فیلڈ میں گھس بیٹھیے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
یہ ہوشربا انکشافات سامنے آنے کے بعد میرے اندر سے صحافت کی تکریم و تحریم کا رہتا سہتا مادہ بھی ختم ہوچکا تھا ۔

میں یہ بالکل بھی نہیں کہتا کہ جل میں ساری مچھلیاں گندی ہیں بہت سے ایسے بھی صحافی موجود ہیں جو اپنے اندر کی شرافت، نیک نامی ،اعلیٰ تعلیم، اپنے والدین کی بہترین تربیت اور خاندانی پس منظر کے مرہون منت ہیں اور انہیں صحافتی لبادہ اوڑھے کسی بھی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کا چورن بیچنے والے خرید نہ سکے ہیں اور انکے اندر کے انسان کو حیوان نہیں بناسکے ،

ایسے صحافیوں کی وجہ ہی سے معاشرہ کی برائیاں کھل کرسامنے آتی ہیں ،مسائل اجاگر ہوتے ہیں اور انکی نیک نامی کے چرچے رہتے ہیں ،

انہیں ہر جگہ پذیرائی ملتی ہے جبکہ (دوسری) قسم کے صحافیوں کو نہایت ہی برے القابات سے نوازا جاتاہے جو نہایت ہی افسوسناک ہے ،یہ صحافت جیسے مقدس پیشہ پر بدنما داغ ہیں ۔
میں یہ اچھی طرح سمجھ چکا تھاکہ نیوز چینل چھوٹا ہو یا بڑا ،پرنٹ میڈیا نیشنل ہو یا لوکل ،طرم خان بننے والے وہ تمام کردار کسی نہ کسی خاص (مہارت) کے بعد ہی اعلیٰ مقام اور مرتبے کو پہنچتے ہیں اور انکا شمار (معززین) میں ہونے لگتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ صحافتی لبادے اوڑھے جن افراد کا تذکرہ کیاگیاہے وہ معاشرے میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کرچکے ہیں کہ انہیں انتظامیہ یا پولیس افسران بھی ہاتھ لگانے سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

اپنی شرافت اور نیک نامی کے خول میں پھنسے ایسے صحافی جو واقعی صحافی ہیں وہ بھی ایسے افراد بلکہ اگر انہیں گروہ کہا جائے تو زیادہ بہترہوگا سے خوف کھاتے ہیں اور اپنی عزت بچانے پر مجبور ہیں ۔

ان میں صحافتی اقدار کی تمام خوبیاں ہونے کے باوجود وہ احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

ان تمام انکشافات اور حقائق کو دیکھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ اس برائی میں سب سے بڑا حصہ ان میڈیاہائوسز کا ہے جو خود بھی ان ہی راستوں سے چل کر آئے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اس کاروبارکو یونہی جاری رکھاجائے تاکہ اگرمیڈیا ہائوس ناکام بھی ہوجائے تو کم از کم ایسے افراد جو انکے صحافتی چورن کو اچھے سے فروخت کرسکیں انہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھیں ۔

ان میڈیا مالکان کو اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جن لوگوںکو اپنے میڈیا کا نام دے رہے ہیں انکا ذریعہ معاش کیا ہے اور انہیں صحافت کی الف ب بھی آتی ہے یا نہیں ۔

لہذا انکا دین دھرم صرف پیسہ ہے اور وہ اس ذریعے سے پیسہ دینے والی (اے ٹی ایمز) حاصل کرچکے ہیں۔برائی کا دوسرا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو ذہنی اور عملی طورپر جرائم پیشہ ہیں انہیں پولیس اور انتظامیہ سے بچنے کی غرض سے صحافتی چورن بیچنا بہت ہی پسند ہے اور وہ اس صحافتی چورن کے ذریعے ناصرف میڈیا ہائوسز کا پیٹ بھر رہے ہیں بلکہ اپنے ناجائز دھندوں کوبھی چارچاند لگارہے ہیں ۔
پڑھے لکھے افراد جو یہ سب نہیں کرسکتے اگر خوش قسمتی سے انہیں میڈیا ہائوسز میں بغیر کسی سفارش یاپیسہ کے صحافتی خدمات کا موقع ملتا ہے تو وہ ایک مخصوص وقت کے لیے نہیں بلکہ فل ٹائم صحافی بن جاتے ہیں اور اپنے قلم سے حق اور سچ کی آواز بلند کرتے نظرآتے ہیں ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں مگر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہی لوگوں پر معاشرہ کو بھی ناز ہے کہ وہ نامساعد حالات ،کم تنخواہ، کم وسائل میں بھی اپنے ادارے کے ساتھ وفانبھاتے ہیں اور میری دعا ،نیک تمنائیں ایسے ہی لوگوں کے لیے ہیں اور رہیں گی۔ میڈیا ہائوسز کو اپنی پالیسیوں کو بدلنا ہوگا کہ نمائندگی کے لیے تعلیم،تجربہ،چال چلن سرٹیفکیٹ ،سابقہ ریکارڈ وغیرہ کو مدنظر رکھا جائے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی ہوسکے اور وہ صحافتی لبادہ نہ اوڑھ سکیں کیونکہ میڈیا ہائوسز کی بھی بدنامی ہوتی ہے ۔
جرائم پیشہ افراد جو صحافتی لبادے میں چھپ چکے ہیں انہیں سب سے زیادہ سپورٹ پریس کلبز فراہم کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پریس کلبز کے اندر بیٹھے 80فیصد سے زائد افراد کا تعلق بھی اسی کیٹگری سے ہوتا ہے جنہیں اپنے جیسے ہی افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ پریس کلب پر قبضہ جمانے کے لیے انہیں اپنی آستین میں چھپاتے ہیں۔ یہ افراد پریس کلب میں ہرقسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں اور سالانہ الیکشن میں بھرپور کامیابی کے لیے ہر جائز ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ،سیاسی مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں، مالی طورپر کمزور ممبران کو دھونس دھاندلی، سیاسی اپروچ ،پیسوں کا لالچ دیکر خریدتے ہیں اور فروخت نہ ہونے والوں کے خلاف میڈیا کمپین کے ذریعے حراساں کرتے ہیں۔ اپنی پسند کا آئین بناتے ہیں اور ناک کی موم بناکر جب چاہیں ردوبدل کرتے ہیں ، کابینہ میں بڑے تین عہدوں ،صدر،جنرل سیکرٹری، فنانس سیکرٹری کے علاوہ دیگر تمام ممبران ڈمی منتخب کیے جاتے ہیں جن میں فیصلہ سازی کی قوت ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں اپنے مالکان کی اجازت کے بغیر بولنے دیا جاتا ہے، انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آئین کس بلا کا نام ہے یا آئین پر عملدرآمد کے لیے کیا قانون و ضوابط ہیں ایسی کسی بھی معلومات سے یہ لوگ لابلد ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے اکثر وبیشتر پریس کلبز میں دیکھا ہوگا کہ جتنے بھی ورکنگ جرنلسٹس ہونگے یا تو وہ پریس کلب کے انتہائی خاموش ممبر ہونگے یا پھر پریس کلب سے باہر ہونگے اور وہ باہر اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ باشعور صحافی ہوتے ہیں انہیں آئین و قانون کی سمجھ بوجھ ہوتی ہے وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی جرات رکھتے ہیں ،وہ جرائم ،کرپشن اور پریس کلب میں منفی سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اسی لیے سب کرپٹ ممبران و عہدیداران کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں ۔یہ کرپٹ عناصر اپنے ہی بنائے ہوئے آئین پر عملدرآمد سے کتراتے ہیں اور ہمیشہ آئین کی خلاف ورزی کرکے اپنا ووٹ بنک بناتے ہیں ۔

آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہوگا کہ پریس کلب کے تین بڑے عہدیدار ہی ایک سال کی حکومت ملنے پر نئی چمچماتی گاڑیوں کے مالک بن جاتے ہیں پیسے کی ریل پیل شروع ہوجاتی ہے، انکا طرز زندگی ہی بدل جاتا ہے اسکی بھی ایک بڑی وجہ اور پریس کلب کے دیگر سادہ لوح ممبران کی بیوقوفی،کم عقلی اور بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والوں کی مفاد پرستی ہے۔

یہ کم عقل جن کی اپنی سوچ ہمیشہ ہی گھاس چرنے نکل جاتی ہے کبھی سوال نہیں اٹھاتے کہ ایک سال کی حکومت میں پریس کلب لاکھوں روپے فنڈ کے نام پر بٹورتا ہے مگر فائدہ صرف تین لوگ ہی کیوں اٹھاتے ہیں باقی ممبران کو پورا سال مختلف سرکاری،نیم سرکاری، پرائیویٹ ،سیاستدانوں اور سیاسی پلیٹ فارمز سمیت صحافتی تنظیموں کے ہاں بھی فروخت کردیاجاتاہے ۔

ایسی سوچ سے پیدل لوگ ہمیشہ ہی صرف ایک چائے کی پیالی، عید تہوار پر پانچ سوروپے مالیت کا سوٹ اور بھرپور ڈنر کے عوض اپنے ضمیر کو فروخت کرکے خوشیاں منارہے ہوتے ہیں کہ پریس کلب میں انکی بہت ویلیو ہے اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے جبکہ یہ لوگ صرف معمولی اشیا کے لالچ میں ہرسال متعدد پلیٹ فارمز پر فروخت ہوچکے ہوتے ہیںاور انہیں خبر تک نہیں ملتی۔

بڑے شہروں کے پریس کلبز میں تو شائد ہی اکٹھے ہونے والے فنڈز ممبران میں برابری کی سطح پر تقسیم کردیے جاتے ہوں،تربیتی ورکشاپس،غیرملکی دورے اور دیگر بہت سی مراعات دی جاتی ہوں مگر چھوٹے شہروں کے پریس کلبز میں یہ روایت کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پریس کلب کے تمام ممبران کو برابر کا حصہ دیا جائے اور انکی مالی معاونت کرکے انہیں اس قابل بنایاجائے کہ وہ احساس محرومی سے نجات حاصل کریں ،ان کی صحافتی ٹریننگز کا بندوبست کیاجائے ،انہیں ای لائبریری کی سہولت فراہم کی جائے،انہیں ریسرچ ورک کے لیے کمپیوٹر لیب بناکر دی جائے ،انہیں صحافت کے جدید پروگرامزاور تکنیکی مہارتوں سے روشناس کرایا جائے ،جو لوگ صحافت کا شوق رکھتے ہیں انکے لیے صحافتی اکیڈمی قائم کی جائے ،الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا کے فرق اور اہمیت کو اجاگر کیاجائے ،تحقیقاتی رپورٹنگ سمیت صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کی آگاہی کرائی جائے ، جدید صحافت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے آگاہی اور تربیتی ورکشاپس کرائی جائیں ، دنیا میں ہونے والی جدید صحافتی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کے لیے غیر ملکی دورے کرائے جائیں مگر یہ سب کچھ اس لیے بھی ناممکن ہے کہ اول تو پریس کلبز پر قابض افراد خود اتنے پڑھے لکھے اور باشعور نہیں ہوتے ،دوسرا یہ کہ انہیں قدیم یا جدید صحافت کی الف ب سے کیا لینا دیناکیونکہ کرپٹ اور مفاد پرست ٹولے کبھی بھی ورکنگ جرنلسٹس کو آگے نہیں آنے دینگے اور احساس محرومی و احساس کمتری میں مبتلا ہرسال فروخت ہونے والے ممبران میں کبھی یہ جرات پیدا نہیں ہوسکے گی کہ وہ ان معاملات پر بحث کرسکیں ۔

لولی لنگڑی صحافت کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکومتی ایوانوں میں بھی قانون سازی پر سنجیدگی کا مظاہرہ ہونا چاہیے ناں کہ صرف حکمران اپنے آس پاس چاپلوس صحافیوں کا ٹولہ اکٹھا کرکے خوش ہوتے رہیں، دنیا بھر میں صحافتی اقدار ،حق رائے دہی، آزادی اظہار کو بہت اہمیت دی جاتی ہے مگر پاکستان میں ان معاملات کو زیر بحث نہیں لایاجاتا جس کا نقصان صحافتی فیلڈ کے ان نوجوانوں کو ہورہاہے جو بطور پیشہ اسے اپنانے کے لیے اپنا مستقبل دائو پر لگارہے ہیں۔

رحیم یارخان

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button