"معصوم بچے کب تک ہوس کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے”

تحریر : سید ساجد شاہ

تحریر : سید ساجد شاہ

"معصوم بچے کب تک ہوس کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے”

رحیم یارخان : ہماری قوم اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ ہو چکی ہے۔کوئی ایسی خرابی نہیں جو ہم میں موجود نہ ہو۔

نتیجتاً ہم بد تہذیبی کے جس نہج پر کھڑے ہیں وہاں صرف اور صرف بھوک، افلاس، قحط، افراتفری اور زلزلوں جیسے عذاب ہی آتے ہیں۔دو قومی نظریہ پر قائم ہونے والے ہمارے ملک پاکستان میں پچھلے تیس برسوں سے معصوم بچوں، بچیوں کو اغوا کرنے اور اُن کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر قتل کرنے کا بھیانک اور افسوس ناک، نہ رُکنے والا سلسلہ اب طوالت اختیار کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ خواتین کے ساتھ بھی اجتماعی اور انفرادی زیادتی کے واقعات بڑی شدت سے سامنے آ رہے ہیں۔

کچھ واقعات تو رپورٹ ہو جاتے ہیں مگر اکثر تو اپنے خاندان کی عزت و وقار کی خاطر ایف آئی تک بھی درج نہیں کراتے ہیں، پاکستان میں کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے بڑھتے واقعات لمحہ فکریہ ہیں یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑ رہی ہے کہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں جنسی زیادتی سرِفہرست ہے اور اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ باوجود اس خطرناک حد تک اضافے کے اس 97 فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں عوام نعروں میں، حکمران بھاشن دینے میں اور میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے چکروں میں مصروف نظر آتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے ’سیکس اوفینڈر رجسٹر‘ سمیت فارنزک سائیکاٹری کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی مدد سے جنسی جرائم میں ملوث افراد پر نظر رکھی جاتی ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں ایسا کوئی ڈیٹا بیس موجود نہیں ہے اولاد دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے،

اس کے ساتھ بدفعلی اور بچیوں کے ساتھ زیادتی پھر اس کا قتل جہاں بہت بڑا قومی جرم ہے وہیں اُن والدین کے احساسات اور جذبات کا اندازہ کون لگائے گا۔ اُس ماں کو کون تسلی دے گا جس نے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر اولاد کو جنم دیا، اُس کی پرورش کی مگر ظالم درندوں نے ایک ماں سے اُس کا لختِ جگر چھین لیا،

والد کا پھول بن کھلے مرجھا گیا۔ ایسے واقعات سے دوچار ہونے والے خاندان کو گھن لگ جاتا ہے، وہ زندگی بھر اِس روگ کو لئے جیتے جی مردہ زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں

۔ لیکن اگر معاملہ ہمارے مستقبل کے معماروں کا ہو تو ہمیں کبھی بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، ہمیں چاہیے ہم آگے بڑھیں، سامنا کریں اور معاملات خود درست کریں

 پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں ایسے مجرموں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سزا دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ہمیں مغرب کے دبائو میں آئے بغیر سعودی عرب، ایران اور دیگر اسلامی ملکوں کی طرح ایسے درندوں کو سرعام پھانسی دے کر نشانِ عبرت بنانا ہوگا، ورنہ ہمارا حشر بھی قومِ لوط جیسا ہو جائے گا۔

ہماری اور مغرب کی تہذیب میں بہت فرق ہے۔حکومتیں عوام کے جان و مال و عزت و آبرو کی حفاظت کرنے میں مکمل ناکام ہیں بڑھتے ہوئے جرائم اور بچوں، بچیوں و  خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو نہ روکنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بڑی ناکامی ہے پاکستان میں بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی بنیادوں پر خوف، تشدد اور بندوق کی بنیاد پر زیادتی کے واقعات کا پے در پے رونماہونا ایک حساس نوعیت کا مسئلہ ہے۔

اس طرز کے واقعات کی وجہ سے  ملک پر بدنامی کا بدنما داغ لگتا جا رہا ہے عوام الناس میں اضطراب بڑھتا جارہا ہے اور عوام  عمومی طور ان واقعات پر معاشرے کی سیاسی، سماجی، اخلاقی اور قانونی ساکھ پر سوالات اٹھا رہے  ہیں۔ ایک طرف جنسی زیادتی کے واقعات کا ہونا اور دوسری طرف ایسے واقعات میں زیادتی کے مرتکب مجرموں کا کھلے عام دندتے پھرنا کئی سوالات جنم دیتا ہے،

 رحیم یارخان کے نواحی علاقے مئومبارک میں کمسن بچی  کے ساتھ جو کچھ پچھلے دنوں جنسی زیادتی کا واقعہ رونما ہوا ہے وہ معاشرے میں یقینی طور پر اس پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ یہ طبقہ حقیقی معنوں میں عدم تحفظ کا شکار ہے۔

کسی بھی بچی کو دکان  کے اندر زیادتی کا نشانہ بنانا بربریت کی تصویر کھینچتا ہے کہ بطور معاشرہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پڑھنے یا دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں معصوم بچوں اور بچیوں سمیت عورتوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ریاست مدینہ میں معصوم بچے، بچیاں اور خواتین کیونکر خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں اور کیوں وہ ڈر اور خوف کا شکار ہوتی ہیں؟یعنی عورت یا بچی و بچے کا گھر سے نکلنا ہی اس کا بڑا جرم بن جاتا ہے اور اس جنسی سطح پر ہونے والی زیادتی کے بعد جو کچھ سماجی، خاندانی او رمعاشرتی سطح پر اس کے ساتھ جو سلوک یا برتاؤ ہوتا ہے وہ خود تکلیف دہ امر ہے۔

اس لیے معاشرے کے بالادست طبقات جو سیاسی، سماجی، مذہبی، انتظامی اور قانونی محاذ پر بڑی حیثیت رکھتے ہیں ان کو بھی اپنے الفاظ، طرز عمل کے چناؤ میں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ تعصب کا پہلو نمایاں نہ ہو۔ان مجرموں کے خلاف سنگین نوعیت کی سزا دینی ہوگی اور خود ہماری پارلیمنٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو حتمی فیصلہ پر اتفاق رائے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

میڈیا میں چلنے والے ڈراموں، فلموں اور اشتہارات میں عورتوں کی جنسی عکاسی کے مقابلے میں ان کی مثبت تصویر پیش کی جائے۔ واضح رہے کہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ اس وقت زور پکڑ گیا تھا جب پنجاب کے شہر قصور کی سات برس کی زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اسے قتل کر دیا گیا تھا۔

 تبدیلی سرکار کو ایسی پالیسی مرتب کرنی چاہیے کہ صوبائی انتظامیہ کے ساتھ ملکر مجرموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے یہ ایسا نازک معاملہ ہے اگر اسکو نظر انداز کیا گیا تو ہماری جگ میں رسوائی ہوگی کہ پاکستان جو اسلام کا قلعہ ہے جہاں معصوم کلیاں کھلنے سے قبل ہی مسل دی جاتی ہیں۔

بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کی کئی ایک وجوہات بیں جن میں سیکولر جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشی کا فروغ، بڑھتی ہوئی بے حیائی اور جنسی آوارگی کو جدید معاشرہ کی ضرورت قرار دینا ہے ایک طرف چیختی، چلاتی، سسکتء، بلکتی معصوم و نابالغ بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف رسمی تعزیتی الفاظ اور روایتی قانونی کارروائیاں۔

جاری رہتی ہیں اگرچہ جنسی درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو گرفتار کرکے سزائیں بھی دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ایسے واقعات میں تیزی سے اضافے کی وجہ فحش و عریاں فلموں کی بآسانی دستیابی، نیٹ کیفے کلب، مخرب اخلا ق رسائل،نجی محفلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹر،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نما یاںکر نے والے زنانہ تنگ لباس، تعلیمی اداروں میں مخلوط پروگرام، شراب اور منشیات کا بے

دریغ استعمال نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کر کے بے راہ روی کا زریعہ بن رہا ہے جنسی درندگی کے بڑھتے واقعات پر قا بو پانے کے لیے قانون کو حرکت میں لا کر اِن خرافات کو کنٹرول کرنے کے ساتھ عورت کی عصمت وعفت کے لئے دین اسلام کی تعلیمات کو معاشرے میں بھر پور طریقہ سے نافذ کیا جائے ،

سکولوں کالجوں خاص طور پر پرائیویٹ سیکٹر میں قائم اداروں میں تفریح کے نام پر ناچ گانے پر پابندی انتہائی ضروری ہے اسلامی اصولوں کے مطابق جنسی جذبات برانگیختہ کرنے والا مواد، انٹرنیٹ کیفے،  فلمیں ،ڈرامے جن میں عورت کی بے حرمتی ہوتی ہے ان سب کو ممنوع قرار دیا جائے

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button