رحیم یارخان کی تاریخ جغرافیائی طور

رحیم یارخان کی تاریخ

ضلع رحیم یارخان جغرافیائی طور پر سند ھ ،راجھستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع ہے ۔اس کی تاریخ پر ان تین بڑے علاقوں کے اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں ۔رحیم یارخان کبھی سندھ کی ریاست کا ماتحت علاقہ رہا کبھی جیسلمیر،ملتان اور آزاد ریاست بہاول پور کا، بعدا زاں ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد اسے پنجاب میں ضم کر دیا گیا ۔یہ علاقہ قدیم تاریخ کے حوالے سے ہاکڑ ہ تہذ یب کا ایک مرکزرہا ہے ۔ہاکڑ ہ تہذ یب وادی سندھ کی وسیع تہذیب کا ہی حصہ ہے ۔

وادی ہاکڑ ہ موجود بہاول پور ڈویژن کے علاقے پر مشتمل ہے ۔ولہار سے ریتی تک دریائے ہاکڑہ کی وادی شمال مشرق سے جنوب مغرب کی طرف تین سومیل لمبی ہے اور اس کی چوڑائی قربیاًپچاس میل ہے ۔دریائے ہاکڑہ سندھ کا معاون دریا تھا ۔کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ دریا جمنا سے علیحدہ ہو کر اس علاقے سے بہتا ہوا دریائے سندھ میں گرتا تھا جبکہ کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ دریائے ستلج کی شاخ یا خود ستلج ہی ہے جو ایک زمانے میں یہاں پر بہتا تھا ۔کچھ کا خیال ہے کہ ہاکڑ ہ خود ایک دریا تھا جو اپنے سوتے سے ہی رخ پھیر گیا ۔بہر حال جو بھی ہو چولستان میں ہاکڑ ہ دریابہتا رہا ہے ۔ اس دریا کا نام گھا گرہ بھی ہے اور کہا جاتاہے کہ ویدوں میں جس دریا کوسر سوتی کہا گیا ہے وہ یہی دریا ہے ہاکڑ ہ کی کئی گزرگارہوں کے نشانات ملے ہیں۔جدید نہری نظام میں ضلع بہاول نگر میں ستلج سے ایک بڑی نہر نکالی گئی جس کا نام "ہاکڑہ” رکھا گیا ،کہا جاتاہے کہ یہ نہر دریائے ہاکڑہ کی ایک گز ر گاہ میں بنائی گئی تھی ۔

جدید تحقیق کے مطابق وادی ہاکڑہ سے چار سوسات مقامات کے اثرات ملے ہیں جو چار ہزار قبل مسیح سے لے کر ایک ہزار قبل مسیح تک کے ہیں۔اس لحاظ سے یہ اثرات ہڑپہ تہذیب سے بھی قدیم ہیں اور ہڑپہ کے ختم ہوجانے کے بعد تک یہاں تہذیب موجودر ہی ۔دو”ٹھیڑ”تو اتنے بڑے ہیں کہ یہ ہڑپہ سے بھی بڑے شہر تھے ۔ہڑپائی دور کے بھی کئی مقامات ملے ہیں۔بہت سے مقامات کے اثرات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس علاقے میں بدھ مت کا بھی کافی اثر موجود رہاہے ۔اور یہ علاقہ چند رگپت اوراشوک کی حکومت میں شامل رہاہوگا ۔اس سے پہلے 500قبل مسیح کے بعد سند ھ اور پنجاب ایرانی بادشاہوں کے زیر تسلط رہے ۔ایرانی بادشاہ دارا(522ق م)کی سلطنت کا ایک صوبہ ہندوش تھا جو سند ھ اور پنجاب پر مشتمل تھا اور رحیم یارخان بھی اس کا حصہ تھا ۔

رحیم یارخان کی تاریخ 

۔327 ق م میں سکندرا عظم کی زیر قیادت یونانیوں نے حملہ کر کے ایرانی سلطنت کو تہہ وبالا کر دیا اور یونانی فوج فتوحات کرتی ہوئی پنجاب اور سندھ تک آگئیں۔یونانی فوج سندھ اور مکران کے راستے واپس یونان گئی اور اپنے پیچھے پنجا ب اور سندھ پریونانی حاکم چھوڑ گئی ۔موریہ خاندان نے انہی یونانیوں کو نکال کر اس علاقے پر قبضہ کیا ۔

            سند ھ اورپنجاب میں321ق م سے 187ق م تک موریہ سلطنت قائم رہی ۔موریہ سلطنت کو سب سے زیادہ وسعت اشوک اعظم کے زمانے میں ملی ۔اس زمانے میں بدھ مت کو عروج حاصل ہو ا ۔اس سارے علاقے میں بدھ مت پھیل گیا اور آنے والی چند صدیوں میں بدھ مت کا گہر ا اثر رہا ۔سن عیسوی کی ابتدئی صدیوں میں کشان اور ساکا قبائل یہاں حکومتیں بناتے رہے اور پھر ایران کے ساسانی بادشاہ سندھ پر قابض ہوگے اور رحیم یارخان اس وقت سندھ کا حصہ تھا ۔

 ء 495میں سندھ پر رائے خاندان کی حکمرانی قائم ہوئی ۔رائے حکمرانوں کا دارلخلافہ الورتھا ۔جو سرواہی سے ایک سو میل کے فاصلے پر تھا ۔ سرواہی اب رحیم یارخان میں واقع ہے ۔اس وقت سندھ چارصوبوں پر مشتمل تھا جو یہ ہیں ۔برہمن آباد ،سیوستان،اسکلندہ اور ملتان۔رحیم یارخان صوبہ اسکلند ہ میں شامل تھا ۔قلعہ اسکلندہ اب بھی اوچ شریف کے قریب واقع ہے ۔رائے خاندان کے پانچ حکمرانوں نے اس علاقے پر کل 137برس حکومت کی ۔

رائے حکمرانوں کے نام یہ تھے ۔رائے دیواجی ،راے سہارس ،راے سہاسی ،راے سہارس دوم اور رائے سہاسی دوم۔جب رائے سہاسی دوم سندھ کا حکمران تھا تو ایک برہمن نوجوان چچ جوالور کے مندر کے پجاری کا بیٹا تھا ،اس کے دربار میں داخل ہوا اور پنی ذہانت سے ترقی کرتا ہواوزیر بن گیا ۔رائے سہاسی کی کوئی اولاد نہیں تھی لہذا اس کی بیماری کے وقت چچ کو نیا حکمران بنوانے میں رانی سوہن دیوی نے اہم کردار ادا کیا اور پھر اس کے ساتھ شادی بھی کر لی ۔چچ پڑھا لکھا او ذہین شخص تھا ۔اس نے اپنی حکمت عملی سے سندھ کی ریاست میں مزید وسعت پید ا کرکے اپنی سلطنت کو ملتان اور سیوی (سّبی)تک پھیلا دیا ۔رائے سہاسی کا بھائی رانا مہر تھ جو چتو ڑ کا راجہ تھا ،نے الور پر حملہ کیا مگر کامیاب نہ ہو سکا ۔راجہ چچ نے سند ھ پر چالیس برس حکومت کی اور وہ 660ءمیں فوت ہو ا ۔یہ دور سندھ کی تاریخ میں اس لیے بھی اہم سمجھا جاتاہے کہ اس دور سے سند ھ کی تاریخ باقاعدہ تحریری حالت میں دستیاب ہونا شروع ہوئی ۔چچ کے بعد اس کا بھائی راجہ چندر سند ھ کا حکمران بنا اور 668ءمیں فوت ہو گیا ۔

رحیم یارخان کی تاریخ

راجہ چند ر کے بعد سندھ دوحصوں میں تقسیم ہو گیا ۔الور کے تخت پر چچ کا چھوٹا بیٹا داہر بیٹھ گیا جبکہ برہمن آبادکا حاکم راجہ چند رکا بیٹا راجا بنا مگر وہ ایک سال بعد ہی فوت ہو گیا ۔پھر برہمن آباد کا حاکم راجا داہر کا بڑا بھائی داہر سنگھ بنا مگر کچھ عرصے بعد وہ بھی فوت ہوگیا تو راجہ داہر پورے سندھ کا حاکم بن گیا ۔رحیم یارخان شروع سے ہی راجہ داہر کی سلطنت کاحصہ رہا ۔راجہ داہر کے زمانے میں سندھ کی سلطنت اور بھی وسعت اختیار کرگئی راجہ داہر نے سندھ پر 43برس حکومت کی اور اس کی حکومت سندھ میں عربوں کی آمد کے بعد ختم ہو ئی ۔

            محمد بن قاسم کی سرکردگی میں عرب فوج سندھ کو فتح کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ۔712ءکو عرب فوج نے الور پر چڑھائی کر دی ۔راجہ داہر کی فوج اور عرب فوج میں جنگ ہوئی ۔راجہ داہر لڑتا ہوا مارا گیا اور محمد بن قاسم فتح یاب ہوا قلعہ سرواہی اور مئو مبارک عرب فوج کی گذرگاہ تھیں ۔اطاعت قبول کیے جانے کی وجہ سے یہاں کسی لڑائی کا ذکر نہیں ملتاقلعہ اسکلند ہ سات دن کی خون ریز لڑائی کے بعد فتح ہوامحمد بن قاسم فتوحات کرتاہواملتان تک پہنچ گیا ۔ اس نے قریباً ساڑھے تین سال فتوحات کیں اور مقامی حاکم مقرر کیے ۔اس وقت رحیم یارخان ملتان کی سرکاراوچ کا علاقہ بنایا گیا ۔محمد بن قاسم کے بعد اس علاقے پر عرب سے حاکم مقرر ہو کر آتے رہے ۔879ءکے قریب عباسی خلافت کمزورہوئی تو سند ھ میں کئی ریاستیں خود مختار ہوگئیں۔ان میں ملتان کی ریاست بھی تھی ۔ملتان کی ریاست پر بنوسامہ نے حکومت بنائی ۔ملتان کی ریاست پر محمو د غزنوی کے حملہ تک خود مختار مسلمان حاکم حکومت کرتے رہے ۔ اس سارے عرصہ میں رحیم یارخان ملتان کی ریاست کا حصہ رہا ۔گیا رہویں صدی میں محمود غزنوی نے ملتان کی ریاست کو فتح کر لیا اورقریباًایک صدی غزنوی حکمران یہاں حکومت کرتے رہے ۔بارہویں صدی میں یہ علاقہ غوری سلطنت کے ماتحت آگیا ۔رحیم یارخان صوبہ ملتان کی ایک سرکار اوچ شریف کا حصہ رہا ۔

            ۔1445ءسے 1527ءتک ملتان پر لنگاہ خاندان حکمران رہا ۔اس دوران ضلع رحیم یارخان کے کچھ علاقے ملتان ریاست کاحصہ رہے اور کچھ علاقے سندھ کی حکومت کے ماتحت رہے ۔

            اس دوران سندھ میں پہلے سومرو حکومت کررہے تھے ۔1350ءمیں سردار جام انٹر نے سومروں کو شکت دے کر ٹھٹھہ کے تخت پر قبضہ کیا اور سمّہ خاندان حکومت کی بنیاد رکھی ۔سمّہ حکمران مسلسل اپنی سرحدوں کو وسیع کرتے رہے ۔تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ رحیم یارخان سمّہ حکمرانوں کے ماتحت رہا ہو گا ۔دوسرے سمّہ حکمران جام جونہ نے قلعہ بکھر پر حملہ کیا جو مغلوں کے ماتحت تھا ۔مغل حاکم شکست کھا کر دریائے سندھ کے دوسری طرف اوچ میں منتقل ہو گئے ۔بارہویں سمہ حکمران جام سکندر کے زمانے کے ایک کنویں کا کتبہ برآمد ہوا جس پر سرائیکی کے درج ذیل اشعار لکھے ہوئے ملتے ہیں۔

سلاں سل بند تھیاں پھگیا نام نصیر                     وقت سکند ر بادشاہ ملک دھنی پہلوان                     

رعیت راضی ایہہ جہی جو پیدا نت جوان               ترائے سو بوٹی باغ دی رادھی انٹر جام                     

            سند ھ کا ارغون حکمران شاہ حسن بیگ 1525ءمیں ملتان کو فتح کرنے کے لیے نکلا تو قلعہ سرواہی قلعہ مئومبارک ،قلعہ اوچ اور قلعہ دراوڑ کو فتح کرتے ہوئے ملتان پہنچا ۔لنگا ہ خاندان کے آخری حکمران سلطان حسین لنگاہ کو شکست ہوئی۔ شاہ حسن ارغون نے ملتان فتح کرنے کے بعد اسے دہلی کے مغل بادشاہ بابر کے حوالے کر دیا ۔یوں رحیم یارخان ضلع کے علاقہ جات مغل سلطنت کے صوبہ ملتان کا حصہ بنے رہے ۔مغلوں کے سارے دور میں یہ علاقہ صوبہ ملتان کا حصہ رہا ۔اکبر اعظم کے دور میں پنجند سرکارمیں جو ستا ر اں محال بیان کیے گئے ہیں ۔ان میں سے کچھ علاقے وہ ہیں۔جو موجود ضلع رحیم یارخان میں واقع ہیں۔

رحیم یارخان کی تاریخ

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button