رحیم یارخان کے تاریخی قلعہ اب کس حال میں ہیں

رحیم یارخان کے تاریخی قلعہ

قلعہ مئو مبارک

قدیم قلعے کے کھنڈرات کے ساتھ یہ قدیم شہر رحیم یار خان سے شمال میں 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ایک روائت کے مطابق راجہ ہنس کروڑ نے یہ شہر اپنی والدہ کی رہائش کے تعمیر کرایا اور اسی لئے مئو مبارک کہلایا ۔راجہ ہنس کروڑ کے بارے میں تاریخ مراد کہتی ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ کا ہم عصر تھا ۔ اس جگہ پر بھی لوگوں نے اپنی ذاتی رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں ۔ یہ قلعہ 20 برجیوں اور میناروں کے آثار اب بھی موجودہیں ان میں سے ایک کی اونچائی 50 فٹ ہے قلعے کے پشتوں کا محیط 600 گز ہے۔ مکران کے گورنر حضرت شیخ حمید الدین حاکم کا مزار بھی یہیں پر موجود ہے

قلعہ تاج گڑھ
رحیم یارخان سے چند کلو میٹر پر واقع اس قلعہ کے آثار بہت تیزی سے ختم ہو رہے ہیں ایک وجہ توا س کی یہ بھی تھی کے مقامی آبادی اس پر قابض ہوتی چلی گئی ۔اور اس کی باقیات کو تیزی سے اپنے مکانوں میں استعما ل کیا ،اور موجودہ حالت میں اس کا ذکر کتابوں کے حد تک واضح ملتا ہے ۔اگر وہاں جائیں تو اس کی کچھ باقیات سے انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ کبھی یہاں کوئی قلعہ بھی تھا ۔روایات کے مطابق بھاٹیہ خاندان نے ہی قلعہ درواڑ اور قلعہ بجنوٹ کی تعمیر کی تھی ۔1780اے ڈی میں علی ہلانی نے پہلے سے موجو د قلعہ کو مسمار کر دیا اور اس کا نام اپنے بیٹے کے نام پر تاج گڑھ رکھا تاہم تاج گڑھ یہ بھی کہا جاتا ہے اسے آباد کر نے وا لے دائودپوترہ خاندان سے تھے ۔

قلعہ رکن پور

اسے محمد خان کہرانی 1776ء میں تعمیر کیاتھا ۔اور اس کی تعمیر میں گارے کے ساتھ کچی اینٹ کا استعمال ہواتھا ۔اس کی باقیات دین گڑھ سے 55کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں ۔یہ قلعہ غوث پور بھی کہلاتا ہے اس قلعہ کے اندر ایک حصہ رہائشی بھی تھا ۔

بھٹہ واہن

رومانوی لوک داستان سسی پنوں کے مشہور کردار سسی سے منسوب ایک تاریخی مقام ہے ۔ بھٹہ واہن سسی کی جنم بھومی کے طور پر مشہور ہے ۔ سسی کی ماڑی(کئی منزلہ عمارت ) ہے جو کچھ عرصہ قبل تک بہتر حالت میں موجود رہی ہے اب بہتر نگہداشت نہ ہونے کے سبب زمیں بوس عمارت ہورہیہے یہ قصبہ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے

قلعہ اسلام گڑھ
قلعہ اسلام گڑھ تحصیل خانپور میں مشرق میں واقع ہے جسے جیسلمیر کے حکمران بھیم سنگھ نے 1608 ء میں تعمیر کرایا ۔اس کی طرز تعمیر اس کواہم جنگی قلعہ ثابت کرتی ہے ۔پاک بھارت سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے 1971ء کی جنگ میں اسے شدید نقصان پہنچایا ۔پہلے اس کا نام بھیم وار تھا ۔4سو سال سے بھی زائد عرصہ گزر نے کے باوجود اسے کسی ادارے نے محفوظ کرنے کی کوشش نہیں کی اس کی فصیل پر بنے ہوئے برج تعداداور سائز میں مختلف ہیں اس کی فصیل کی اونچائی 45فٹ تک رہی ہو گی اوپر سے چوڑائی 10سے 12فٹ رہی ہوگی ۔

احمد پور لمہ
یہ قصبہ قدیم عمارتوں کی وجہ سے مشہور ہے جبکہ اس قصبہ کو چار دروازوں والی فصیل نے محفوظ کررکھا تھا جو اب منہدم ہو چکی ہے۔

قلعہ خیر گڑھ
رحیم یارخان سے 65کلومیٹر کے فاصلے پر یہ قلعہ آج بھی بہتر حالت میں موجو دہے اسے 1775ء میں سردار اختیار خان نے تعمیر کیا اس کا طرز تعمیر اسے ایک اہم دفاعی چوکی ثابت کر تا ہے اس کی تعمیر میں پختہ اینٹ کے ساتھ گارے کا استعمال ملتا ہے ۔مستطیل نمااس قلعہ کے مرکزی دوازے کا رخ مشرق کی سمت ہے ۔اس سے اندر داخل ہو ں تو دونوں اطراف میں دو کمرے بنے ہوئے ہیں جب کہ دو راستے اوپر فصیل کی جانب جاتے ہیں ۔فصیل کی چوڑائی 8فٹ اور اونچائی 24فٹ تک رہی ہو گی ۔اس وقت اس کے جنوبی دیوار کا حصہ ریت میںدب چکا ہے جب کہ فصیل سے پختہ اینٹیں بارشوں کی وجہ سے گر چکی ہیں ۔مرکز ی دوازے سے اندر داخل ہوں تو مغربی فصیل کے ساتھ ایک قطار کی صورت میں کمروں کے واضح آثار ملتے ہیں ۔ اس قلعے کی چھتیں ڈاٹ والی ہیں ۔

سر واہی قلعہ

سنجر پور تحصیل صادق آبادکے قریب لاہور کراچی شاہراہ سے مغربی جانب ایک میل کی دوری پر واقع ہے یہ اہم تاریخی حیثیت کا حامل ہے اس کا شماررائے سہاسی دوئم کے چھ ناقابل تسخیر قلعوں میں ہوتا ہے ۔اس کی تعمیر اس علاقے سندھ میں اسلام کی آمد سے قبل ہوئی جہاں یہ قلعہ ہے اس سارے علاقے میں بہت سے قدیم آثارت موجود ہیں ۔کھدائی کی جائے تو بہت سی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔

قلعہ دین گڑھ

یہ قلعہ صادق آباد کے جنوب میں پاک بھارت سرحدکے قریب واقع ہے اسکی تعمیر کا آغاز 1756 ء میں کیا۔ یہ قلعہ بہادر خان ہلانی نے تعمیر کیاتھا ۔صادق آباد سے چولستان کی طر ف اس کی باقیات ملتی ہیں ۔جبکہ کبھی ایک راستہ پتن منارہ (رحیم یارخان )سے بھی اس طرف جاتاتھا ۔یہ قلعہ پہلے سے موجود ایک قدیم قلعہ کے کھنڈرات پر بنایا گیا تھا جسے بعض رویات کے مطابق جیسلمیر کے ایک راجا نے تعمیر کیاتھا ۔اور اس کو قلعہ ’’ترہاڑ ‘‘کانام دیا ۔اور اس علاقہ کا نام بھی یہی تھا ۔تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ اس علاقے کا نام پہلے سے ترہاڑ تھا ۔یا اس قلعہ کے بعد اس کا نام پڑ ا۔

قلعہ سردار گڑھ

یہ قلعہ رحیم یارخان کے شمال میں 35 کلومیٹر کے فاصلے پر کے ایل پی روڈ پر واقع ہے ریاست بہاولپور کے فوجی کمانڈر نصیرخان گورگیج نے فوجی حکمت عملی کے تحت تعمیر کرایا تھا۔ایک خیال یہ ہے کہ بہاول پور کے نواب مبارک خان نے تعمیر کیا ۔اس علاقے کو نواب نے پڑوسی ریاست بیکانیر کے والی سے پٹہ پر لیا تھا ۔اور پہلے سے موجود اسی قلعہ پر اس نئے قلعے کی تعمیر کی ۔مگر اسی دوران والی بیکانیر نے اپنے وزیر کی وجہ سے نواب کو منع کر دیا ۔اس پر نواب اور بیکانیر کی افواج کے دمیان جنگ ہوئی اس میں بیکانیر کو شکت ہوئی ۔اس طرح یہ علاقہ مستقل طور پر نواب کے قبضے میں آگیا ۔اس قلعہ پر اسی وقت میں تین توپوں بھی رکھی ہوئی تھیں جن پر لگی پیتل کی پلیٹ پر مہاراجہ دھیرج ،مہاراجہ زوراورسنگھ موسمبت 1797ء درج تھا ۔بیکا نیر کی سپاہ جب شکست کھا کر بھاگی تو نواب مبارک کی سپاہ نے اسے قبضے میں لے لیا ۔

قلعہ لیارا

کوٹ سبز ل سے جنوب کی طر ف 24 میل دور واقع اس قلعے کی باقیات ہیں جسے سبزل خان نے 1755 ء میں تعمیر کیا۔ یہ وہی سبزل خا ن تھا جس کے نام پر تحصیل صادق آباد میں شہر کوٹ سبزل بنا یاگیا تھا ۔مگر 1804ء میں دریائے ہاکڑہ میں آنے والے سیلاب نے اسے مسمار کر دیا ۔اس کی تعمیر بھی گارے کے ساتھ پختہ اینٹ استعمال کی گئی تھی ۔اب اس کی باقیات کوٹ سبزل سے چولستان کی جانب موجود ہیں ۔چوکورنمایہ قلعہ شمال سے جنوب کی طرف 121فٹ اور مشرق سے مغرب کی جانب 112فٹ ہے اس کے چاروں اطراف برج بھی بنائے گئے تھے ۔جن میں سے دو کے آثاربھی مدہم پڑتے جارہے ہیں ۔جبکہ باقی کے دوپر سے پختہ اینٹیں تو نہیں مگر ان کی موجودہ صورت حا ل سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے آثار کا قطر 24فٹ اور اونچائی بھی اتنی ہی ہوگی ۔تاہم دیواروں کی اونچائی ان سے قدرے کم ہے ۔

قلعہ کنڈیر

صادق آباد تحصیل میں بنگلہ منٹھار سے مغرب کی جانب سے چند میل کے فاصلے پر قلعہ کنڈیر کے آثار ہیں یہ قلعہ بھی جیسلمیر کے قریب پڑتا ہے اس کی تعمیر نو 1754ء میں ہوئی ۔اسے بھکر خان جانی کے بیٹے فضل خان جانی نے تعمیر کیا ،مگر اسے1805ء میں نواب بہاول خان دوئم نے تباہ کر دیا ۔162مربع فٹ پر اس قلعے کے چاروں اطراف برج بھی بنائے گئے تھے ۔جو 21فٹ ڈایا میٹر کے ہو نگے۔اور ان میں سے جو شمال مشرقی اور جنوب مشرقی سمت میں تھے ۔ان کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 21 فٹ تک ہو گی اس کی فصیل 8فٹ تک چوڑی ہو گئی ۔مگر پختہ اینٹ کے ساتھ اس کی چوڑائی زیادہ ہو گئی ۔منٹھار (صادق آباد )چولستان کی سمت میں واقع اس قلعہ کے آثار بہت تیزی سے ختم ہوتے جارہے ہیں ۔

قلعہ بھاگلہ
رحیم یارخان سے چولستان کی جانب واقع یہ عہد ماضی میں بہترین اور بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہو گا ۔اس کی تعمیر میں گارے کے ساتھ کچی مٹی کا استعمال ہوا تھا ۔اسے 1767ء میں علی مراد خان جانی نے تعمیر کیا ۔شمال سے جنوب اسکی لمبائی 128فٹ اور مشرق سے مغرب اس کی لمبائی 192فٹ تک رہی ہو گی ۔مرکزی دروازے کا رخ مشرق کی سمت میں اور 12فٹ تک ہو گا ۔اس قلعہ کی شمالی فصیل خمدار ہے جس کا بظا ہر کو ئی مقصد سمجھ نہیں آتا ۔فصیل کی چوڑائی 7فٹ تک اور اس کے اطراف میں بنے برجوں کی اونچائی 19فٹ تک رہی ہو گی ۔اس قلعہ کے اندر اور بھی اس میں پہلے سے موجود اور تباہ شدہ تعمیر ات کے آثار ملے ہیں ۔اس قلعہ کے نام پر چولستان رینجر نے اپنی چیک پوسٹ کا نام بھی بھا گلہ چیک پوسٹ رکھا ہے ۔

(قلعہ فلجی (فالجی
منٹھار (صادق آباد )سے چند کلومیٹر کے فیصلے پر اس کے آثار ملتے ہیں ۔مستطیل نما اس قلعہ کی شمال سے جنوب لمبائی 240فٹ اور مشرق سے مغرب 160فٹ تک رہی ہوگی ۔اور اس کے اطراف میں برج بھی تعمیر کئے گئے تھے۔

قلعہ نواں کوٹ
چولستان میں واقع نواں کوٹ 156مربع میٹر ہے اس قلعہ کی تعمیر میں گارے کے ساتھ کچی اینٹ کا استعمال ہوا ۔چاروں کونوں پر برج بھی بنے ہوتے تھے۔دیواروں کی چوڑائی 10فٹ تک رہی ہو گی ۔دروازے سے جو راستہ شمال کی طرف جاتا ہے وہ 10فٹ چوڑا ہے اور اس کے دونوں طر ف محافظوں کے کمرے ایک قطار کی صورت میں بنے ہوئے تھے ۔ان کی تعمیر میں پختہ اینٹ استعمال ہوئی ۔اس قلعہ کے کونوں پر بنے برج 45میٹر ڈایا میٹر کے تھے ۔قلعہ کے وسط میں اس کی مغربی دیوار کے ساتھ 5کمروں کے واضح آثا ر ملتے ہیں ۔دفاعی نوعیت کا یہ قلعہ بہت خوبصورت ہوتا ہو گا ۔

rahim yar khan famous places

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button