خشکی پر موجود تاریخی بحری جہاز انڈس کوئین کا ڈھانچہ،دیکھنے والوں کو ماضی کی یاد دلانے لگا

انڈس کوئین
لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے دریائے سندھ کے بڑے معاون دریا ستلُج میں ایک بڑی کشتی دریا پر راج کرتی تھی۔ یہ کشتی ریاست بہاولپور کے نواب صادق پنجم کی ملکیت تھی اور اس کا نام ’ستلج کوئین‘ رکھا گیا تھا۔ یہ کشتی سنہ 1867 میں بنائی گئی تھی۔

indus-queen-rajan-pur-1

کشتی ستلج کوئین نواب بہاولپور کے ذاتی استعمال میں رہتی اور اس وقت جب انگریز افسران اپنی بیگمات کے ساتھ اس علاقے میں آتے یا نواب بہاولپور کے دیگر مہمان آتے تو یہ انھیں دریا عبور کرنے میں مدد فراہم کرتی تھی۔

اس کشتی کے تین حصے تھے۔ نیچے والے حصے میں انجن، جنریٹر اور ملازمین کے کمرے تھے۔ درمیانی حصہ مسافروں کے بیٹھنے کے لیے تھا، ایک حصہ عورتوں اور ایک مردوں کے لیے مختص تھا۔ ایک ریستوران بھی تھا جس سے بیک وقت 400 مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔
اس بڑی کشتی پر سفر کرنے والے خانپور کٹورہ کے رہائشی مجاہد جتوئی کا کہنا ہے کہ یہ جہاز اپنے وقت کا لگژی جہاز تھا ،اعلی معیار کی لکڑی اس میں لگی ہوئی تھی
1960میں قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت تین دریا ستلج، بیاس اور راوی انڈیا کے حوالے کر دیے گئے۔ اس کے بعد دریائے ستلج ویران ہو گیا اور کشتی دریائے سندھ میں منتقل کر دی گئی جہاں اس کا نام انڈس کوئین رکھ دیا گیا تھا۔دریائے سندھ میں پانی کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے اس کو دریا سندھ کے کنارے کھڑا کر دیا گیا
اور سنہ 1996 میں اچانک اس میں آگ لگ گئی اور ہائی وے ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہی اور تب سے لے کر اب تک دریائے سندھ کے کناروں سے بھی دور میدانوں میں پڑی ہے۔
یہ کشتی نواب بہاولپور نے خواجہ غلام فرید کی درگاہ کو تحفے میں دے دی تھی جہاں یہ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان پوری شان و شوکت سے دریائے سندھ میں چلتی تھی۔ یہاں زیادہ تر خواجہ غلام فرید کے عقیدت مند اور دیگر مسافر اس پر سفر کرتے رہے۔ خواجہ غلام فرید کے عرس کے موقع پر زائرین کی بڑی تعداد کوٹ مٹھن جانے کے لیے اسی پر سفر کرتے تھے۔

انڈس کوئین کا جرنیٹر
انڈس کوئین کا جرنیٹر

اس کشتی کے تین حصے تھے۔ نیچے والے حصے میں انجن، جنریٹر اور ملازمین کے کمرے تھے۔ درمیانی حصہ مسافروں کے بیٹھنے کے لیے تھا، ایک حصہ عورتوں اور ایک مردوں کے لیے مختص تھا۔ اس میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی اس کے علاوہ ایک ریستوران بھی تھا جس سے بیک وقت 400 مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔

انڈس کوئین کا ڈرائیور
انڈس کوئین کا ڈرائیور

بحری جہاز کے کپتان اللہ دتہ نے رحیم یارخان ڈاٹ نیٹ کی ٹیم کو بتایا کہ انڈس کوئین پر 30سال تک مقامی اللہ دتہ بطور ڈرائیور کا کام کرتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ 41روپے تنخواہ پر میں یہ بحری جہاز چلاتا تھا یہ کوٹ مٹھن سے چاچڑاں شریف مسافروں کو لے کر جاتا تھا اچانک اس میں آگ لگی اور سب کچھ ختم ہو گیا

بزرگ ہستی حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کو نواب آف بہاولپور کی جانب سے تحفہ میں دیئے جانے والے بحری بیڑے کی خستہ حالی پر ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد رحیم یارخان نے  تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بحری بیڑا ہماری تاریخی ورثہ ہے اسے اس بدحالی میں نہیں چھوڑا جائے گا اور ضلعی انتظامیہ جلد اس کو اپنی اصل حالت میں بحال کرے گی تاکہ سیر و سیاحت کے لئے آنے والے افراد کو اس کی تاریخی حیثیت سے روشناس کرایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جلد بحری بیڑے کی بحالی کے اقدامات شروع کئے جائیں گے۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button