قصوروار کون۔۔۔؟؟؟

ْشاہد ندیم

ْشاہد ندیم

صادق آباد
ہم ساری زندگی اسی شش و پنج میں رہتے ہیں ، کبھی خود کو اور کبھی دوجے کو غلط کہتے ہیں۔ ایک سرد جنگ ہماری اندر موجود ہے اس لئے ہماری سوچ مفلوج اور محدود ہے۔

شکستہ خواب ،کچھ سراب اور بے ہنگم شور کے پیچھے ہم رینگ رینگ کر زیست گزارتے ہیںاور خود کو زندہ رکھنے کے لئے دوسروں کو مارتے ہیں۔

قوتِ برداشت، بردباری اور تحمل رخصت ہو چکے ہیں، ہم کسی اندھیری وادی میں کھو چکے ہیں۔ ہم اپنی ذات میں تنہا ہو چکے ہیں، جاگتی آنکھوں پر پٹی باندھے سو چکے ہیں۔

ضمیر کہیں سر عام اور کہیں درپردہ بک رہے ہیں۔عزت، غیرت اور شرم ،یہ کردار کسی رئیس زادے کے سامنے جھک رہے ہیں۔ خودروگھاس کی طرح بدعنوانی پھیل رہی ہے، تعصب کی شجرکاری اور رشوت ستانی پھیل رہی ہے۔

الفاظ تاثیر سے خالی ہو گئے ہیں، والدین اولاد کے آگے سوالی ہو گئے ہیں۔ پندو نصاح کی باتیں کتاب کی قبر میں دفن ہو گئی ہیں، ہماری خوشحالی کی داستانیں نجانے کہاں کھو گئی ہیں۔ مایوسیت اور یاسیت ہماری اذہان پر غالب ہیں،

اب نہ کوئی حالی نہ اقبال اور نہ ہی جالب ہیں۔

مساجد اور کھیل کے میدان موبائل کے ہاتھوںبے آباد ہوئے ، طفل مکتب اور استاد ہر مکتبہ فکر کے سبھی برباد ہوئے۔ ضرورت کی دیوی نے تگنی کا کا ناچ نچا رکھا ہے،

ہمیں نہ ختم ہونے والی خواہشوں کی سولی پر چڑھا رکھا ہے۔ ہم دوسروں کے معاملے میں باخبر ہیںاور اپنی ذات سے ہیںبے خبر ، ہم رستہ بھٹک چکے ہیں اور اب ہمیں کرنا ہے بنا منزل کے سفر۔ دولت و ہوس نے ہم سے ہماری تہذیب چھین لی ہے ، اور بدلے میں گھن زدہ تہذیب دی ہے۔

سائنس جوں جوں ترقی کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسانیت فٹ پاتھوں پر مر رہی ہے۔ زبان سے شکوے شکایات کی بارش بنا بادل کے برستی رہتی ہے،

کبھی حاکم سے کبھی حکومت سے ہر لمحہ جھگڑتی رہتی ہے۔ انا پرستی، قوم پرستی اور مادہ پرستی ہماری پہچان بن گئے ہیں،ہم معلوم سے نامعلوم کی جانب چل پڑے ہیں۔

علم و دانشوری سے ہم روزی روٹی چلاتے ہیں، اور مسیحائی سے خوب پیسہ کماتے ہیں۔

اس اخلاقی گراوٹ، بد حالی ، خشک سالی اور سیاہ کاری کا مجر م اور سزاوار کون ہے، اگر میں اور آپ نہیں توپھر قصور وار کون ہے۔۔۔؟؟؟

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button