دو جوان بیٹے تھے لیکن دو وقت کی روٹی بھی نہیں دیتے تھے

دو جوان بیٹے تھے لیکن دو وقت کی روٹی بھی نہیں دیتے تھے۔۔۔خواجہ اینڈ سنز کے علی اعجاز کی دکھ بھری کہانی

انسان زندگی میں کامیابیوں کے سارے پہاڑ سر کرلیتا ہے لیکن پھر قسمت اسے اس نہج پر لے آتی ہے کہ وہ ساری کامیابیاں زیرونظر آنے لگتی ہیں۔۔۔علی اعجاز مرحوم پاکستان کی فلم انڈسٹری اور ڈرامہ انڈسٹری کے ستاروں میں سے ایک بہت ہی قیمتی ستارہ تھے۔۔۔جنہیں ﷲ نے شہرت، عزت اور نام سے نوازا۔۔۔جنہوں نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور ان کی ہر فلم میں کامیابی کی مہر لگی ہوتی تھی۔۔۔انہوں نے سونا چاندی، خواجہ اینڈ سنز جیسے ڈراموں میں اپنی اداکاری کی وہ چھاپ لگائی جو آج تک ذہنوں میں نقش ہے۔۔۔ایک عرصہ تک اسکرین پر راج کرنے والے اس اداکار کے بارے میں کچھ سال پہلے خبر ملی کہ فالج نے حملہ کردیا۔۔۔

اس خبر نے ان کے چاہنے والوں کو مایوس تو کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ لوگ آہستہ آہستہ اپنی دنیا میں مگن ہوگئے۔۔۔کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ ایک اداکار کافی عرصہ سے اسکرین سے غائب ہے۔۔۔پھر انہیں اچانک ایک شو میں اسماء عباس کے ساتھ دیکھا گیا۔۔۔اور اس شو نے کئی ایسی باتیں کھولیں جنہیں جان کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔۔۔

علی اعجاز ایک شادی شدہ آدمی تھے اور ان کے دو بیٹے تھے جنہیں انہوں نے بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔۔۔انہوں نے بہت کمایا اور اپنا گھر بنایا، دو گاڑیاں لیں۔۔۔بڑے بیٹے کی شادی کی۔۔۔لیکن قسمت نے اور وقت نے پلٹا کھایا۔۔۔جن بچوں کی خاطر اپنی جوانی کو کھوتے رہے۔۔۔انہوں نے علی اعجاز کے بڑھاپے کو روند دیا۔۔۔

جس وقت انہیں اولاد کی اور بیوی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ، اس وقت ان کے گھر والوں نے انہیں تنہا کردیا۔۔وہ سارا دن فالج میں پڑے رہتے لیکن کوئی پانی بھی پوچھنے والا نا ہوتا۔۔۔جب تک کماتے رہے لوگ آگے پیچھے پھرتے رہے۔۔۔لیکن پھر دوست اور میڈیا کے چاہنے والے بھی بھاگنے لگے کہ کہیں کچھ مانگ ہی نا لیں-

علی اعجاز کے ایک دوست کو جب پتہ چلا تو وہ ان کے پاس آئے اور انہیں اپنے آفس میں بٹھایا۔۔۔ان کو لانے اور لے جانے کا کام بھی انجام دیا۔۔۔جس پی ٹی وی کو وہ اپنا گھر مانتے تھے ، اس ادارہ نے انہیں بلانا چھوڑ دیا کہ کہیں گاڑی نا بھیجنی پڑے۔۔۔وہ صبح اسٹور روم میں ہی چولہے پر چائے بناتے، رس کھاتے اور آفس چلے جاتے۔۔۔نماز کے ذریعے اپنے فالج سے نجات پائی۔۔۔دوپہر میں دوست ہی کھانا کھلاتے اور رات میں دودھ اور بن کھا کر سو جاتے ۔۔۔تنہا کردیا تھا ان کے اپنوں نے انہیں۔۔۔وہ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے۔۔۔

آخری ایام میں انہیں دل کا دورہ پڑا اور پھر انہیں چار دن ہسپتال میں رکھا گیا لیکن وہ جانبر نا ہوسکے۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ علی اعجاز اپنے اندر بہت پہلے ہی مر چکے تھے۔۔۔یہ ایک جسم تھا جو دنیا داری نبھارہا تھا۔۔۔لیکن اس جسم کے ساتھ بھی کسی نے دنیا داری تک نا نبھائی۔۔۔اور ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔۔۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button