رحیم یارخان: دریائے سندھ کے کچہ ایریا کے جنگلی ٹارچر سیل کا انکشاف
رحیم یارخان : کھوجی کتے کے بھنبھوڑنے سے زخمی خورشید مائی کے مغوی بھائی مشتاق احمد کو دریائے سندھ کے کچہ ایریا کے جنگلی ٹارچر سیل میں بہیمانہ جسمانی وذہنی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف‘ راجن پور کلاں کے سنسنی خیز جرگہ و اغوا اسکینڈل میں نیا موڑ آگیا‘
تحفظ انسانی حقوق موومنٹ نے ڈی پی او کیپٹن ر محمد علی ضیا سے دریائی جنگلات کے اس ایریا کی جیوفینسنگ کروانے کی اپیل کر دی کہ جہاں کان پکڑوانے کے بہانے لے جا کر جام آرائیں گروپ ڈھائی تین گھنٹے تک”کسی“ کا انتظارکرتا رہا۔
اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ گینگ لیڈر اور جرگہ کے سرپنچ دونوں مرکزی ملزمان سمیت اغوا‘ ٹارچر اور کھوجی کتے سے کٹوانے میں ملوث تمام افراد کے پچھلے 2 ہفتے کے موبائل فونز کی لوکیشنز اور موبائل کالز کے ڈیٹا کو بھی کیس کی تفتیش کا حصہ بنایا جائے‘
جدید سائنٹفک بنیادوں پر اس بڑے اسیکنڈل کی تفتیش سے دریائے سندھ سے ملحقہ قصبات میں اغوا برائے تاوان گینگز کیلئے سہولت کاری کرنے والے کئی رسہ گیروں اور مخبروں کا نیٹ ورک پولیس راڈار پر آسکتا ہے‘ ذرائع کا دعویٰ۔
راجن پور کلاں کے کھوجی کتا و جرگہ اسکینڈل میں نیا سنسنی خیز موڑ آگیا‘ ملزموں کے اغوا برائے تاوان گینگز سے مبینہ رابطوں کے انکشاف نے سنسنی پھیلا دی‘
کھوجی کتے کے بھنبھوڑنے سے خورشید مائی کے شدید زخمی ہونے کا باعث بننے والے جام آرائیں گروپ کے جرگے نے مغوی مشتاق احمد کو دریائے سندھ کے نوگو کچہ ایریا میں لے جا کر بہیمانہ جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا اور دریا کنارے کان پکڑوا کرمسلسل 2 گھنٹے مرغا بنائے رکھا‘
اس دوران اغوا کاروں کی طرف سے مشتاق احمد کو چھوٹو گینگ سمیت مختلف اغوا برائے تاوان گینگز کے حوالے کرنے یا ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا میں پھینکنے کی دھمکیاں دے کر پانچ لاکھ روپے کی مبینہ چوری کا اقرار کروانے کیلئے مسلسل بلیک میل کیا جاتا رہا‘
ایک طرف دریائے سندھ کے کنارے یہ ڈرامہ جاری تھا تو دوسری طرف اسی دوران مغوی مشتاق احمد کی بہن کے کھوجی کتے کے کاٹنے سے شدید زخمی ہونے کی خبر اور ویڈیو واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس کی وجہ سے ملزمان کو تین چار گھنٹے بعد اپنے منصوبے میں ہنگامی تبدیلی کرنا پڑی اور اچانک واپس لا کر پولیس کے حوالے کرنا پڑا۔
ہفتہ بھر تک ٖپولیس کی غیرقانونی حراست میں رکھوانے کے بعد جام آرائیں گروپ نے مغوی مشتاق احمد کو پولیس کی ملی بھگت سے ایک پرانے کیس میں گرفتاری ڈالوا کر جیل بھجوایا اور کھوجی کتا و جرگہ اسکینڈل اور اغوا کے الزامات سے جان چھڑوانے کی کوشش کی لیکن مغوی مشتاق احمد کی جیل سے رہائی کے بعد جو سنسنی خیز تفصیلات سامنے آئی ہیں اُن کی وجہ سے یہ کیس ایک نیا اور انتہائی سنسنی ِخیز رخ اختیار کر گیا ہے۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ کھوجی کتے کے کاٹنے سے زخمی ہونے والی خورشید مائی کا یہ مغوی بھائی مشتاق احمد اپنی رہائی کے بعد سے انتہائی خوفزدہ ہے اور نہ تو کھل کر اُن پولیس افسران کا نام لے رہا ہے کہ جنہوں نے اسے اغوا کار جام آرائیں گروپ سے وصول کر کے ہفتہ بھر تک غیرقانونی حراست میں رکھا اور نہ ہی کچہ ایریا کے بڑے اغوا کار گینگز کے حوالے کیئے جانے کی مبینہ دھمکیوں کے بارے میں بات کرنے پر تیار ہے۔
میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے مشتاق احمد نے انکشاف کیا ہے کہ اُسے گھر سے اغوا کرنے کے دوران اُس کی بہن خورشید مائی کے کھوجی کتے کے کاٹنے سے شدید زخمی ہونے کے باوجود ظالموں کو ذرہ برابر بھی رحم نہیں آیا‘ 35 سے 40 کے قریب ملزمان جو 13‘ 14 موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اُسے ساتھ لے کر کم وبیش ایک گھنٹہ تک کچہ ایریا میں مختلف کچے راستوں اور پگڈنڈیوں پر سفر کرتے رہے اور دریائے سندھ کے کنارے پر لے گئے
جہاں جا بجا جھاڑیوں کے جنگلات ہیں اور عام لوگ دن کے وقت بھی اسی ویرانے میں جانے سے ڈرتے ہیں‘
ملزمان وہاں گھنٹوں تک کسی کا انتظار کرتے رہے اور اسے 2 گھنٹے تک کان پکڑوا کر مرغا بنائے رکھا اور یہ مطالبہ کرتے رہے کہ میں اُن کی مبینہ چوری کا اقرار کر لوں لیکن مجھے کچھ علم ہوتا تو بتاتا‘
اس لیئے مرغا بن کر کان پکڑے پکڑے میری حالت خراب ہو گئی جس کسی کا اُنہیں انتظار تھا وہ بھی نہ آیا تو 13‘ 14 موٹر سائیکلوں پر سوار یہ قافلہ مجھے لے کر راجن پور کلاں میں جام لطیف آرائیں کے ڈیرے پر واپس آگیا‘
اس دوران گینگ لیڈر جام ریاض عرف جام ٹیڈی آرائیں اور جرگے کا سرپنچ جام اللہ ڈتہ آرائیں اور دیگر لوگ موبائل فونز پر مختلف پولیس افسران اور کچھ نامعلوم لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے‘
مغرب سے کچھ پہلے پولیس چوکی راجن پور سے منشی اور ایک موٹے سپاہی سمیت 4 پولیس اہلکار ڈیرے پر پہنچے اور اسے حراست میں لے کر چوکی واپس آگئے اور کچھ دیر بعد اسے تھانہ آباد پور پہنچا دیا گیا۔
مغوی مشتاق احمد نے مزید بتایا کہ جام آرائیں گروپ کے گینگ لیڈر جام ٹیڈی آرائیں اور جرگے کے سرپنچ جام اللہ ڈتہ آرائیں کے دباؤ پر اسے تھانے میں غیر قانونی حراست کے دوران بھی 2 گھنٹے کیلئے کان پکڑوا کر مرغا بنایا گیا۔
ملزمان نے اس کا موبائل فون اور 3 ہزار روپے نقدی بھی اُس سے چھین لی۔ ایک سوال کے جواب میں مغوی مشتاق احمد نے بتایا کہ وہ صرف گینگ لیڈر جام ریاض عرف جام ٹیڈی آرائیں‘
سرپنچ جام اللہ ڈتہ آرائیں‘ جام لطیف آرائیں‘ جام الطاف عرف طافا آرائیں‘ جام نازو آرائیں‘ جام جاوید آرائیں‘ جام یارو آرائیں‘ جام سلیم عرف جام سلیما آرائیں اور جام ڈاڈا قمری آرائیں سمیت نو‘ دس ملزمان کو جانتا ہے‘
دیگر کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے جس کچہ ایریا میں اسے لے جایا گیا وہ کچہ پیر عبداللہ شاہ کے قریب ہے اور اس ایریا میں بکھرانی اور بنوں سمیت جھبیل سرائیکی اور مزاری بلوچ قبائل بڑی تعداد میں آباد ہیں اور چھوٹو بکھرانی سمیت مختلف اغوا کار گینگز کے محفوظ ٹھکانے اسی ایریا میں دریا پار عمر کوٹ روجھان سے شروع ہو کر سے سے شروع ہو کر جنوب میں کچہ کراچی تک جاتے ہیں۔
راجن پور کلاں کے مغرب اور بنگلہ دلکشا کے شمال میں پیر عبداللہ شاہ کا کچہ ایریا واقع ہے جہاں مختلف اغوا کار گینگز نے دریائے سندھ کے اندر جزیرہ نما نوگو ایریاز کے دریائی جنگلات میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں‘
یہ محفوظ ٹھکانے ان نوگو ایریاز کے شمالی دریائی علاقوں خاص طور پر کچہ گوپانگ‘ بیٹ میر احمد اور چک 49 سے شروع ہوتے ہیں اور جنوب میں کچہ پیر عبداللہ شاہ‘ کچہ بنوں‘ کچی جمال‘کچی حیدر آباد‘ کچہ سونمیانی‘ کچہ رازی تک جاتے ہیں ان ایریاز کے شمال میں جھبیل قوم آباد ہے اور بکھرانی اسی قبیلے کی سب کاسٹ ہے چھوٹو بکھرانی کا تعلق اسی سب کاسدٹ سے تھا‘
آج کل چھوٹو کا بھتیجا چھوٹو گینگ کا سرغنہ ہے۔ جھبیل‘ بکھرانی‘ گولہ قبائل کے بعد بنوں‘ لنڈ‘ دولانی‘ بنگیانی‘ عمرانی اور لٹھانی قبائل کی بستیاں کچہ کے ان دریائی جزیروں میں ہیں‘
جنوب میں کچھ دشتی اور اندھڑ قبائل بھی آباد ہیں۔ بابا لونگ لٹھانی اور چھوٹو بکھرانی کے گینگز کا تعلق انہی ایریا سے تھا۔ دریں اثنا انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم وکلا اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ راجن پور کلاں میں منعقد کیئے گئے جرگے اور کتے کے بھنبھوڑنے سے زخمی خورشید مائی کے مغوی بھائی مشتاق احمد کو دریائی جنگل میں دریائے سندھ کے کنارے لے جانے کے سنسنی خیز واقعہ کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کروائی جائے۔
ڈی پی او سے پرزور مطالبہ کرتے ہوئے ان رہنماؤں نے کہا ہے کہ دریائی جنگلات کے اس کچہ ایریا کی جیوفینسنگ کروانے کے ساتھ ساتھ تمام نامزد ملزمان کے پچھلے ڈیڑھ ہفتے کے موبائل فونز کی لوکیشنز اور موبائل کالز کے ڈیٹا کو بھی کیس کی تفتیش کا حصہ بنایا جائے۔