مجلس احرار18 سال کی عمر سے پہلے اسلام لانے پرپابندی کے قانون کی ملک بھر میں مزاحمت کرے گی

رحیم یارخان:  مجلس احرار اسلام سندھ اسمبلی سے غیر مسلموں کے 18 سال کی عمر سے پہلے اسلام لانے پر پابندی کے قانون کی منظوری کے خلاف ملک بھر میں عوامی سطح پر مزاحمت کرے گی اور بھر پور احتجاج کیا جائے گا اور پارلیمنٹ میں بھی مزاحمت کی جائے گی،

ان خیالات کا اظہار مجلس احرار اسلام پاکستان  کے مرکزی امیر مولانا سید کفیل شاہ بخاری نے مجلس احرار اسلام کے ضلعی صدر حافظ محمد اشرف،ضلعی جنرل سیکرٹری محمد عبداللہ حجازی، چوہدری بشارت علی احرار، مولانا کریم اللہ لولائی،حافظ محمد صدیق، حافظ محمد زبیر کمبوہ، حافظ علی احمد احرار،قاری شاہد بلوچ، حافظ محمد عاصم بلوچ و دیگر عہداران و کارکنان کے ہمراہ  حافظ محمد اشرف کی رہائش گاہ پر میڈیا و مجلس احرار اسلام کے کار کنان سے گفتگو کر تے ہوئے کیا،

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست بنانے کے  دعویداروں کے دور حکومت میں  مذکورہ غیر شرعی بل منظور ہو گیا ہے، اور زیادہ عمر کے شخص کو قبول اسلام کے بعد تین ماہ تک مذاہب کا مطالعہ کرنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے ارادے سے باز آجائے، یہ ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے،

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی نے پوری قوم کومایوس کیا ہے،

نااہل حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے،حکمران جو ایجنڈا لیکر آئے تھے اس میں ناکام ہو چکے ہیں،حکومتی ڈھانچہ صفر پر ہے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، تعلیم صحت کو برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے،حکومت کواس پر نظر ثانی کر نی چاہئیے،

بلدیاتی انتخابات کرانے چاہیئے تاکہ عوام کو گراس روٹ لیول پر کام کے مواقع میئسر ہوں،مجلس احرار اسلام آئین کی بالادستی اور قانون کی عمل داری کے لیئے اپنی آواز بلند کرتی رہے گی،

اور حکومت کے تمام غیر شرعی اقدامات کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ ان  دنوں قومی اسمبلی میں مذہب کی جبری تبدیلی کے ایک قانونی بل کے مسودے کا چرچا ہے۔ وفاقی حکومت کی وزارت انسانی حقوق اور وزارت مذہبی امور کے مابین بحث کا موضوع ہے‘

وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل شیریں مزاری کی وزارت انسانی حقوق سے بھی مجوزہ بل کا مسودہ مانگ رہی ہے مگر اس وزارت کے طاقتور اہلکاروں کا موقف ہے کہ وہ یہ مسودہ دینے کے پابند نہیں‘

مجوزہ بل کے ذریعے کسی بھی غیر مسلم کے قبول اسلام کو جرم قرار دینے اور کسی غیر مسلم کو بذریعہ تبلیغ‘ نصیحت و حسن اخلاق اسلام کی طرف راغب کرنے والے شخص کو اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی آڑ میں سزا دلانے کا پکا بندوبست کیا گیا ہے۔ اور سندھ اسمبلی کے ارکان نے بھی اس مہم کی حوصلہ افزائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

پاکستان میں ہر معاملے کو اسلام دشمن اور مذہب بیزار مغرب کی آنکھ سے دیکھنے والے چند ارکان پارلیمنٹ نے مل جل کر ایک غیر سرکاری بل پیش کردیا جس کا مقصد قبول اسلام کے رجحان کی حوصلہ شکنی تھا‘

سینٹ کی مجلس قائمہ نے سینٹر انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں ملک بھر سے حقائق اور اعداد و شمار جمع کئے تو یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ سندھ سمیت کسی صوبے میں مذہب کی جبری تبدیلی کا ایک بھی واقعہ منظر عام پر نہیں آیا‘

مذہب کی جبری تبدیلی کے سدباب کے لیے انسانی حقوق کی وزارت اور سینٹ کی مجلس قائمہ نے جو مجوزہ بل تیار کیا ہے

اس میں صراحت سے لکھا گیا ہے کہ: ”کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلی مذہب کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا‘

جہاں عام طور پر غیر مسلم فردرہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔

فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔ کثیر تعداد نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کئے بغیر محض مسلمان تاجروں کے حسن عمل اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا‘

جو مجوزہ بل کی روشنی میں ناقابل قبول عمل ہے جبکہ اس بل نے غیر مسلموں کے لیے تبلیغ اسلام کا راستہ بند کردیا ہے۔ وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل اب تک اس بل کی منظوری میں حائل ہیں مگر طاقتور لابی ان دونوں سے بالا بالا غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے نام پر سینٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کی مہم چلا رہی ہے۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button