پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز یونین کا 7 مارچ کو لاہور میں احتجاجی دھرنے کا اعلان

رحیم یارخان: پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن نے اپنے مطالبات پے اور سروس پروٹیکشن سمیت دیگر مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں 7 مارچ کو لاہور میں احتجاجی دھرنے کا اعلان کردیا جو مطالبات منظور ہونے تک جاری رہے گا۔
گورنمنٹ خواجہ فرید گریجوایٹ کالج میں پی پی ایل اے لوکل یونٹ کا اجلاس زیر صدارت صدر پروفیسر غلام سرور منعقد ہوا۔ جس میں ضلع رحیم یارخان کے تمام بوائز اور گرلز کالجز کے متاثرہ پروفیسرز نے بھی شرکت کی۔

پروفیسر غلام سرور‘ پروفیسر رشمت علی‘پروفیسرشہباز نیر‘پروفیسروحید الدین‘پروفیسر انیلا کنول اور پروفیسرحنا افضل نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مطالبات پے اور سروس پروٹیکشن کی تاریخ‘مسائل اور ان کے حل کے بارہ میں آ گاہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ پروفیسرز کے 2002ء‘2005ء‘2009ء‘ 2012 ء کے بیجز کے 6000 اور کامرس کالج کے 500 اساتذہ کے ساتھ ہونے والی نا انصایاں کے ازالہ ہونے تک لاہور میں دھرنا دیا جائے گا۔ ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں پے اور سروس پروٹیکشن دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ملازمتوں کا دہراہ معیار بہت بڑا المیہ ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی کالجز اساتذہ کو کوئی ریلف نہیں دیا۔اساتذہ دربدر دھکے کھارہے ہیں مگر ارباب اختیار خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

اجلاس میں لاہور میں 7 مارچ کے دھرنے میں شمولیت کے لیے جملہ انتظامات کو حتمی شکل دی گی۔ انھوں نے کہا کہ ملتان‘ ڈی جی خاں‘ لاہور‘ ساہیوال‘ گوجرانوالہ‘ راولپنڈی‘ سرگودھا‘ فیصل آباد اور بہاول پور سے ہزاروں اساتذہ احتجاجی دھرنے میں شرکت کریں گے۔

احتجاجی دھرنہ چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک جاری رہے گا۔انھوں نے کہا کہ کالجز اساتذہ گزشتہ کئی برسوں سے پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام احتجاج اور مذاکرات کے ذریعے اپنے سروس سٹرکچر میں اصلاحات کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پنجاب کی طاقتور افسر شاہی اور عوامی نمائندوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

کالج اساتذہ نے اپنی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے لاہور میں احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔ اگرچہ یہ بات نہایت غیر مناسب لگتی ہے کہ اساتذہ جو کہ معاشرے کا سب سے زیادہ باشعور اور پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ سڑکوں پر آجائیں لیکن اساتذہ کرام کو اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نظر نہیں آتا۔ اگر کالج اساتذہ کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کسی نئے سروس ایگریمنٹ یا تنخواہ میں اضافہ کرنے کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ پنجاب کے کالج اساتذ ہ کو صوبہ کے پی کے کے کالج اساتذہ کی طرز پر سروس سٹرکچر کا حصول ہے۔

اگرچے صوبہ کے پی کے کے کالج اساتذہ کو یہ سروس سٹرکچر اکتوبر 2017 میں بنی گالہ میں احتجاجی دھرنے کے بعد ملا تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہی مراعات اور اصلاحات پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد کالج اساتذہ کو دے دی جاتیں مگر شاید دھرنوں کی سیاست کرنے والے افراد کو دھرنوں کے علاوہ کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔

اس وقت پنجاب میں کالج اساتذہ کی ترقی کے لیے چار درجاتی فارمولہ (3: 19: 36: 42) نافذ ہے۔ جس کی وجہ سے کالج اساتذہ کی گریڈ سترہ سے اٹھارہ میں ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ اکثر اگلے درجہ میں ترقی کے لیے پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں۔

لہذا کالج اساتذہ کی ایک بڑی تعداد گریڈ اٹھارہ اور گریڈ انیس میں ریٹائر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ترقی کے لیے اجلاس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ یہ سب محکمہ اعلی تعلیم کے افسران کی صوابدید پر منحصر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس کے پی کے میں کالج اساتذہ پانچ درجاتی فارمولہ (0.5: 6: 22: 35: 36.5) سے مستفید ہورہے ہیں۔

محکمہ اعلی تعلیم میں اصلاحات نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اس محکمہ میں غیر پر کشش ہونے کی وجہ سے گریڈ بیس کے افسران کی عدم دلچسپی بھی ہے۔

ترقی کے علاوہ کالج اساتذہ کا ایک بڑا مسئلہ پے پروٹیکشن ہے۔ یہ مسئلہ 2002ء، 2005ء، 2009ء اور 2012ء میں پی پی ایس سی کے ذریعے بھرتی ہونے والے لیکچررز کا ہے۔ یہ تمام لیکچرر کنٹریکٹ پالیسی کے ذریعے بھرتی ہوئے تھے اور ان کے معاہدے میں درج تھا کہ ریگولر ہونے کے بعد ان تمام اساتذہ کو پے پروٹیکشن دی جائے گی۔

اس کے بعد 2015 ء سے کنٹریکٹ بھرتی کی پالیسی بھی ختم ہو گئی اور اب تمام نئے لیکچرر پہلے دن سے ریگولر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود مذکورہ بالا لیکچررز کا کنٹریکٹ کا عرصہ سروس میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس وقت کے پی کے میں تمام ملازمین کو پے پروٹیکشن دی جا چکی ہے۔

اسی طرح اگر صوبہ کے پی کے میں کالج اساتذہ کے الاونسز پر نظر دوڑائی جائے تو پی ایچ ڈی الاونس، ہارڈ ایریا الاونس اور بی ایس انسنٹو میں کے پی کے صوبہ پنجاب سے آگے ہے۔

انھوں نے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کالج اساتذہ کو سٹرکوں پر آنے سے روکے اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرکے درس و تدریس کے نظام میں اصلاحات نافذ کرے کیونکہ استاد کی شرکت اور دلچسپی کے بغیر کوئی بھی تعلیمی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

اگر استاد ہی اپنے آپ کو محرومی کا شکار سمجھے گا تو پھر ایک با اعتماد نسل کی تیاری ممکن نہیں ہوسکے گی۔ انھوں نے توقع ظاہر کی کہ حکومت کالجز اساتذہ کے جملہ مطالبات فورا تسلیم کرے تاکہ اساتذہ کو احتجاج کرنے کی نوبت نہ آئے ورنہ تنگ آمد بجنگ آمد اور 7 مارچ کو لاہور میں دمادم مست قلندر ہو گا اور نقص امن کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button