چولستان میں 40 فیصد گائے اور 28 ہزار اونٹ پائے جاتے ہیں

رحیم یارخان : پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوبی پنجاب کے صحرائی خطے چولستان میں کم از کم 13 لاکھ بھیڑ بکریاں، پانچ لاکھ دیگر مویشی ہیں جن میں سے 40 فیصد گائے اور 28 ہزار اونٹ پائے جاتے ہیں۔یہ جانور سوا چار لاکھ لیٹر سے زیادہ دودھ پیدا کرتے ہیں۔
چولستان گائے

چولستان کے مویشی پالنے والے افراد کے مطابق یہ پیداوار بہت کم ہے اور اس علاقے میں صلاحیت ہے کہ یہاں موجودہ تعداد سے کئی گنا زیادہ جانور اور دودھ پیدا کیا جا سکے۔

فاروق احمد سندھو اس علاقے کے مویشی پالنے والے نمایاں افراد میں شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جانوروں سے بہت سارا دودھ اس لیے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ چرنے کے لیے پانچ پانچ روز صحرا کے اندر چرا گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’اگر یہاں دیہاتوں کے قریب مناسب چرا گاہوں کو فروغ دیا جائے تو دودھ کی یہ مقدار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
’چولستان میں جانور بیماریوں سے مر رہے ہیں، پانی کے ٹوبھوں (تالابوں) کے ساتھ مرے ہوئے جانوروں کی ہڈیاں اور ڈھانچے ملتے ہیں۔ حکومتی ادارے جانوروں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔‘
جانوروں کے لیے چارہ، پانی اور شیڈ کے انتظامات کرنا ہوں گے تاکہ جانوروں کو تپتی دھوپ سے بچایا جا سکے۔

فاروق سندھو نے یہ بھی کہا کہ مناسب مارکیٹنگ پلان نہ ہونے کی وجہ سے حاصل کردہ دودھ اور اس کی مصنوعات بھی چولستان سے بہت کم ہی باہر جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دودھ، مکھن اور دیسی گھی گھر میں ہی استعمال کر لیا جاتا ہے اور کمرشل اداروں تک نہیں پہنچ پاتا۔

فاروق سندھو کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس خطے میں دودھ، دودھ سے بنی مصنوعات اور گوشت کی پیداوار بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے چاہییں۔

اسلام گڑھ سے تعلق رکھنے والے چولستانی محمد حیات کا کہنا ہے کہ ان کے پاس دو سے اڑھائی سو کے قریب جانور ہیں اور انہیں ان کی افزائش کے لیے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے جانور بیماریوں اور بھوک سے مر جاتے ہیں۔ گھاس کی کمی سے گائے دودھ بھی بہت کم دیتی ہے نہ تو حکومت اور نہ ہی یہ لائیو سٹاک والے ہمارے پاس آتے ہیں اگر حکومت دودھ کی فروخت اور جانوروں کی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرے تو ہمارے جانور مرنے سے بچ سکتے ہیں اور دودھ کی پیداوار بھی بڑھ سکتی ہے۔

 علاقے میں جانوروں کی افزائش میں بہتری اور ان کے مسائل کے حل کے لیے حکومت نے بہاولپور میں ایک لائیو سٹاک ڈائریکٹوریٹ بنایا ہے۔

Directorate of livestock
Directorate of livestock

 اس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سہیل عظمت کا کہنا ہے کہ چولستان کے بڑے جانوروں جن میں گائے اور دوسرے جانور وغیرہ شامل ہیں میں منہ کھر،گل گھوٹو جیسی بیماریاں ہوتی رہی ہیں، جن پر قابو پایا جا رہا ہے۔

Sohail Azmat Cholistan
Sohail Azmat Cholistan

ڈاکٹر سہیل عظمت کہتے ہیں کہ ’اب چولستان میں جانوروں کے مرنے کی شرح بہت کم ہو کر رہ گئی ہے۔ جانوروں کی طبی سہولیات کے لیے 12 موبائل ویٹرنری ہسپتال ہیں جو 24 گھنٹے کام کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ چولستان میں جانوروں کی تعداد سرکاری اندازوں سے زیادہ ہو سکتی ہے کیوں کہ حکومت نے فی جانور 25 روپے ٹیکس عائد کررکھا ہے اس لیے لوگ اپنے جانوروں کی تعداد کم لکھواتے ہیں۔

ڈاکٹرسہیل عظمت نے بتایا کہ ’حکومت نے دودھ کی پیداور بڑھانے کے لیے 400 مراکز بنائے ہیں جہاں پر گائے بچہ دیتی ہے تو گائے اور اس کے بچھڑے کو رکھا جاتا اور گائے سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔‘
لیکن ’کلر والا کھوہ‘ کے رہائشی عبدالمجید کا کہنا ہے کہ حکومت نے  موبائل ویٹرنری ہسپتال تو چولستان کو دیے ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے اور چولستان کا علاقہ بہت بڑا ہے۔

عبدالمجید کے مطابق ’یہ ہمارے علاقے تک نہیں پہنچ پاتے تو باقی علاقے میں کیسے پہنچتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے جانور بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔

مڈل مین‘ کا مسئلہ

چولستان میں مویشی پالنے والوں کے لیے ایک اور اہم مسئلہ مڈل مین کا ہے جو ان سے دودھ کم قیمت میں خرید کر شہروں میں مہنگا بیچتا ہے۔

ڈاکٹرسہیل عظمت کا کہنا ہے کہ ’مڈل مین‘ دودھ اس لیے بھی سستا خریدتا ہے کہ اس کو روزانہ تین سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے آنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر سہیل عظمت نے یہ بھی بتایا کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چولستانی اچھی قیمت پر دودھ فروخت کریں۔ لیکن یہاں پر دودھ کی پیداوار میں بھی مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

عبدالمجید کہتے ہیں کہ ان کے 700 جانوروں کے دودھ کا بیشتر حصہ شہروں اور مارکیٹوں میں نہیں پہنچ پاتا کیوں کہ ان کا علاقہ اتنا دور ہے کہ وہاں کوئی دودھ لینے والا بھی نہیں پہنچ سکتا۔

Show More

اک نظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button