چولستان میں پانی اور خوراک کی قلت ,بین الاقوامی کانفرنس کااہتمام کیاگیا
رحیم یار خان:خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں رحیم یار خان خصوصا چولستان میں پانی اور خوراک کی قلت اور اس کے خاتمے کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس کااہتمام کیاگیا
جس میں ملکی و غیر ملکی ماہرین نے شرکت کی۔ کانفرنس کا انعقاد انٹرنیشنل واٹر منیجمنٹ انسٹی ٹیوٹ(آئی ڈبلیو ایم آئی)، انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(آئی ایف آر آئی) اور ڈیپارٹمنٹ آف ایگری کلچر انجینئرنگ نے مشترکہ طور پر کیا۔
تین روزہ کانفرنس میں آئی ڈبلیو ایم آئی کے پروگرام ڈائریکٹر اور سٹریٹجک پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر سٹیفن یوہلن بروک اور آئی ڈبلیو ایم آئی کے نمائندہ برائے پاکستان و وسطی ایشیا ڈاکٹر محسن حفیظ نے بطور گیسٹ سپیکر شرکت کی۔
جب کہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی این جی اوز اور نجی سیکٹر سے ماہرین بھی شریک ہوئے۔ اپنے خطبہ استقبالیہ میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر کا کہنا تھا یہ یونیورسٹیز کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو درپیش مسائل کا حل پیش کریں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد پانی اور خوراک جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ سے متعلق درپیش مسائل کے لیئے حل تجاویز کرنا ہے۔
انہوں نے کہا بین الاقوامی ماہرین کی موجودگی سے ہم جرمنی، نیدرلینڈز اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا جامعات، زرعی ماہرین اور کسان باہمی تعاون سے ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہے گی۔ وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ چولستان میں پانی کی قلت دل دہلا رہی ہے۔
آج اس یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے ”چولستان کے لیئے پانی بچاؤ مہم” کا آغاز کرتے ہیں۔ آئی ڈبلیو ایم آئی کے نمائندہ برائے پاکستان و وسطی ایشیا ڈاکٹر محسن حفیظ نے شرکا کو پانی، خوراک اور ماحولیاتی مسائل سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی اور اس سلسلے میں ان کی تنظیم کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2050 تک خوراک کی طلب میں 60 سے 100 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ پانی کی قلت 2030 تک لاکھوں لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خوراک اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نظام میں بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا اس سلسلے میں سرکاری و نجی شعبے کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گیسٹ سپیکر ڈاکٹر سٹیفن سٹیفن یوہلن بروک کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی آکر خوشگوار حیرت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر کی ماحولیاتی تبدیلیوں کیخلاف کاوشیں قابل تعریف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں سبزہ اور درخت صحرا میں پھول اگانے کے مترادف ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص ایشیا میں موسم شدید گرم ہوا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ ایک تنبیہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلین انرجی، پانی اور خوراک کے تحفظ میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس ضمن میں آئی ڈبلیو ایم آئی کی جانب سے ایشیا، افریقہ اور دیگر خطوں میں اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات بتائیں۔ سیمینار میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی رکھا گیا جس میں شرکا نے مزکورہ مسائل سے متعلق سوالات کئے
جن کے ماہرین نے تفصیلی جواب دیا۔ اس موقع پر ایم پی اے چوہدری محمد ارشد، سی سی او ساڈی ڈاکٹر مشتاق احمد گل،صدرڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان جاویداقبال چوہدری، پروگریسو فارمز سٹیک ہولڈرز مجیب ارجمند خان، بلال اسرائیل، رئیس علی، انجینئر سلیمان سرور، رجسٹرار ڈاکٹر محمد صغیر، ہیڈ آف ایگری کلچر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر یاسر نیاز، ڈاکٹر بلال طاہر، ڈاکٹر فرحان چغتائی، ڈاکٹر ثمینہ ثروت، فیکلٹی ممبران اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
بعدازاں یونیورسٹی میں آئی ڈبلیو ایم آئی کی جانب سے عطیہ کئے گئے سولر پلانٹ اور سنٹر برائے پانی زمین اور ایکو سسٹم کا افتتاح کیا گیا۔
معزز مہمانوں کو فیکلٹی ممبران سے ملوایا گیا اور سکارپ سائٹ کا دورہ بھی کرایاگیا جب کہ صحرا میں عشائیہ کا اہتمام کیاگیا۔